کوئٹہ(بیورو رپورٹ)بلوچستان کے علاقے سبی میں جعفر ایکسپریس پر کالعدم بلوچ لبریشن آرمی(بی ایل اے)کے دہشت گردوں کے حملے اورسیکیورٹی فورسز کے بہادر جوانوں کے آپریشن کلین اپ کے بعد نت نئی کہانیاں منظر عام پر آ رہی ہیں ،ایسے میں حملے میں زندہ بچ جانے والے عینی شاہدین نے دہشت گردوں کے اٹیک کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال اور آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے جسے سن کر ہر درد دل رکھنے والی آنکھ نم ہو جائے گی۔
”پاکستان ٹائم“کے مطابق جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے دہشت گردوں کے حملے کو قیامت کی گھڑی قرار دیا اور دہشت ناک داستان سناتے ہوئے کہا کہ غسل خانے میں استعمال کا پانی پی کر زندہ رہے،فوج اور ایف سی کی بروقت کارروائی نے ہماری جانیں بچائیں،ٹرین کو روکے جانے اور پھر شدید فائرنگ کے بعد ہر جانب دہشت کا عالم تھا،وہ گھڑی جیسے قیامت کی گھڑی تھی،بے مسافروں پربڑی مصیبت آن پڑی تھی،اس وقت افراتفری اور ہر جانب چیخ و پکار تھی، لوگوں کو اب بھی اپنے پیاروں کی تلاش ہے،کوئی ماں اپنے جگر کے گوشے کو ڈھونڈتی رہی،تو کوئی بیٹا باپ کی تلاش میں سرگرداں ہے تو کوئی بیٹا باپ کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ایک عینی شاہد نے بتایا کہ ٹرین پٹری سے اتری تو کافی سارے لوگ آگئے،ان کے پاس راکٹ لانچرز بھی تھے اور بہت سی گنیں تھیں،انہوں نے ٹرین پر سیدھا فائرنگ شروع کر دی اور پولتے رہے کہ باہر آجاو جو باہر نہیں آئے گا اس کو مار دیں گے،دہشت گردوں نے سب کے شناختی کارڈ چیک کئے،کوئی سندھی تھا،کوئی بلوچی کوئی پنجابی،سب کو انہوں نے الگ الگ بٹھا دیا،جس پر دل کیا اس پر فائرنگ کر دی۔
ایک اور بزرگ عینی شاہ نے بتایا کہ دہشت گردوں نے پہلے کہا نیچے اتر آو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے،جب 182 بندے نیچے اتر آئے تو پھر انہوں نے اپنی مرضی سے بندوں کو مارا۔جعفر ایکسپریس کے ڈرائیور نے بتایا کہ سب سے پہلے انجن میں زور دار دھماکہ ہوا جس سے فیول کی ٹنکی پھٹ گئی،پھر پہاڑوں سے دہشت گرد ٹرین پر حملہ آور ہو گئے اور سب سے پہلے ڈرائیونگ سیٹ کو نشانہ بنایا،خوش قسمتی سے گولی نہیں لگی بس شیشے سے گزر کر آئی اور چھو کر نکل گئی،پاک فوج اور ایس ایس جی کمانڈوز کی بروقت اور اچھی کارروائی کی وجہ سے جان بچ پائی۔مسافروں کی جانب سے فوج اور ایف سی کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا،ان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ جوانوں نے ہمارا بہت خیال رکھا،بازیاب مسافروں کی ان کے آبائی علاقوں کو روانگی کا سلسلہ جاری ہے۔
بدقسمت ٹرین میں سوار ایک مسافر محبوب حسین کا تعلق جنوبی پنجاب کے شہر لودھراں سے ہے،وہ کوئٹہ کے سیٹلائٹ ٹاون کے علاقے میں ہیئر ڈریسر کا کام کرتے ہیں اور ایک کام کے سلسلے میں گھر جا رہا تھااور اس ٹرین کا مسافر بنا جو حملے کی زد میں آئی،حملے کے بعد دہشت گردوں نے ہمیں شناخت کی بنیاد پر مختلف گروپوں میں تقسیم کر دیا تھا جس میں پنجابی،سندھی،بلوچی اور پشتون شامل تھے جبکہ فوج اور ایف سی کے ملازمین کو علیحدہ گروپ میں کر دیا گیا تھا،فائرنگ کا سلسلہ پوری رات چلتا رہا،میرے ساتھ والے شخص کو میری آنکھوں کے سامنے گولی مار کر قتل کردیا جس کے بعد میں بہت خوفزدہ ہو گیا،مرنے والا مسافر دہشت گردوں کے سامنے اپنی پانچ بیٹیوں کا واسطہ دیتا رہا تاہم انہوں نے پھر بھی اس پر فائرنگ کردی،صبح اذان کے وقت ہم لوگ اس وقت بھاگنے میں کامیاب ہو گئے جب ایف سی نے وہاں فائرنگ کی،جب ہم وہاں سے بھاگ رہے تھے تو ہمارے پیچھے فائرنگ ہوتی رہی،دو ڈھائی کلومیٹر کے بعد ہم بھاگ کر محفوظ جگہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے جہاں ہمیں فوج اور ایف سی نے پناہ دی۔
جعفر ایکسپریس کے مسافر اور فوج کے سابق حوالدار اللہ دتہ کا کہنا تھا کہ وہ یہاں کاروبار کے سلسلے میں آئے تھے، خوش قسمتی سے وہ اس دہشتگردانہ حملے سے نکلنے میں کامیاب ہوئے،دہشت گرد وں نے جیکٹ پہنی ہوئی تھیں اور وہ اسلحہ سے لیس تھے،میں نے بھاگ نکلنے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ موت لکھی ہو گی تو مر جاوں گا۔جعفر ایکسپریس میں موجود ایک ریلوے پولیس اہلکار کے مطابق انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بشدت پسندوں کا مقابلہ کیا،ان کے ساتھ ریلوے پولیس کے چار اور ایف سی کے دو اہلکار موجود تھے،شدت پسندوں نے لوگوں کو شناخت کی بنیاد پر علیحدہ کرنے کے بعد فوجی ملازمین کے ہاتھ باندھ دیے تھے،جعفر ایکسپریس کے کئی مسافروں کو شدت پسندوں نے مار دیا تھا،انہیں کوئی ہر تھوڑی دیر بعد مارنے کا آرڈر دے رہا تھا،بدھ کی صبح جب ایف سی کے اہلکار جائے وقوع پر پہنچے تو شدت پسندوں کی ساری توجہ ان کی طرف چلی گئی اور ایسے میں ہم نے بھاگ نکلنے کا فیصلہ کیا،میں بھاگ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قریبی ریولرے سٹیشن پہنچے تو وہاں ایف سی کے اہلکاروں نے ہمیں بٹھایا اور پھر ہمیں وہاں سے مچھ لے گئے۔