لاہور(خصوصی رپورٹ)معروف ماہر قانون اور سیاسی تجزیہ نگار حذیفہ رحمان نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے”دو بڑے“ مکمل متفق ہیں کہ اگر ”عمران کلٹ“ کو ختم نہ کیا گیا تو یہ کلٹ،اللہ نہ کرے پاکستان کو ختم کر دے گا،عام انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تو پیپلز پارٹی،مسلم لیگ ن یا جمعیت علماء اسلام کو خاص فرق نہیں پڑے گا بلکہ عمران خان کو فائدہ ہو گا اور ادارے سیاسی جماعتوں کی سپورٹ بھی کھو دیں گے،اداروں کو اپنی ”ہومیو پیتھی پالیسی“ختم کرنا ہو گی۔
پاکستان ٹائم “کے مطابق معروف ماہر قانون اور سیاسی تجزیہ نگار حذیفہ رحمان قومی اخبار ”جنگ“ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ”حسن بن صباح سے زیادہ مضبوط،نظریاتی اور خطرناک cult شاید ہی کبھی کسی کا رہا ہو۔ایک ایسا cult جو کہ اسکی موت کے بعد ڈیڑھ صدی تک چلتا رہا،اس پر بہت کچھ لکھا گیا،کچھ سچ تھا اور کچھ فکشن پر مبنی تھا۔ہیرلڈ لیم کا ناول”خلت قزاق الموت میں“اور عبدالحلیم شرر کا ناول”فردوس بریں“تو سامنے کی مثالیں ہیں،صلاح الدین ایوبی کو بھی اس فتنے کی سرکوبی سے اس وقت باز آنا پڑا،جب اس کے محفوظ ترین سپہ سالاری خیمے میں اس کے سرہانے تکیے میں تحریر شدہ خنجر اڑسا ہوا ملا کہ”سوچو اگر ہم تمہارے تکیے تک پہنچ سکتے ہیں تو؟۔حسن بن صباح کے کلٹ فالوورز نے ایک طوفان بدتمیزی بپا کر رکھا تھا،اخلاقیات کا جنازہ نکالا ہوا تھا۔کون تھا جو ان کی ہاتھ و زبان کی ضرب سے پرے تھا،وقت گزرتا گیا اور پھر ایک روز شامت اعمال سےاس گروہ نے ہلاکو خان سے پنگا لے لیا۔ہلاکو کے حکم پر اس کی فوج کے ایک حصے نے قلعہ الموت پر دھاوا بول دیا۔فوج نے ڈیڑھ صدی پر محیط دہشت گری کی طلسماتی و کرشماتی علامت ”الموت“ کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا۔اس کلٹ کے ایک ایک فالوور کو چن چن کر منطقی انجام تک پہنچا دیا۔ہلاکو کی فوج ان کے امام کو اپنے ساتھ منگو لیا لے گئی،وہاں اسے گھوڑوں کے اصطبل اور گھوڑوں کی لید کی صفائی پر مامور کر دیا۔ آج کی طرح نہیں کہ امام کو جیل میں بند کر کے اسکی ویڈیوز،آڈیوز نکال نکال کر چلا رہے ہیں اور وہ ڈمی مضمون غیر ملکی جرائد میں لکھ رہا ہے۔جہاں تاریخ میں اسکے بعد دوبارہ حسن بن صباح کے اس کلٹ کا ذکر نہیں ملتا،وہیں کسی ہلاکو کے سیاسی پروجیکٹ کا نشان بھی نہیں ملتا۔آج صبح صبح ایک مقبول سوشل میڈیا فور م پردرج بالا تحریر پڑھی،عین ممکن ہے کہ تحریر کی تمام سطور سے قارئین کی اکثریت متفق نہ ہو مگر اس بات سے تمام لوگ اتفاق کریں گے کہ دو راستوں میں سے ایک صحیح اور ایک غلط ہوتا ہے۔
حذیفہ رحمان لکھتے ہیں کہ ”آج تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جیل میں ہیں۔ریاست کے بڑے اور اسٹیبلشمنٹ کے زعماء سمجھتے ہیں کہ عمران خان ریاست پاکستان کیلئے سب سے خطرناک شخص ہے،اسٹیبلشمنٹ کے دو بڑے مکمل متفق ہیں کہ اگر عمران کلٹ کو ختم نہ کیا گیا تو یہ کلٹ،اللہ نہ کرے،پاکستان کو ختم کر دے گا۔اسی لئے عمران خان پروجیکٹ کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے ریاست ہر حد تک جائے گی لیکن ریاست کے بڑوں کا یہ بیانیہ اس وقت زیادہ کمزور ہو جاتا ہے،جب آپ کے ماتحت ہومیوپیتھی انداز میں اس کلٹ سے نمٹنا شروع کردیتے ہیں۔آج کھل کر لکھنا چاہتا ہوں کہ اگر عمران خان سے صرف کسی طاقتور کا سیاسی اختلاف ہے اور عمران خان کسی ایجنڈے کا حصہ نہیں ہے تو اس کے خلاف ایسی کوئی بھی کارروائی نہیں ہونی چاہئے،جس سے اسکی جماعت اور اس کا ذاتی سیاسی تشخص ختم ہو جائے لیکن اگر ریاست کے بڑے جو کچھ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر بیان کرتے ہیں اور اس کے حق میں ناقابل تردید شواہد بھی پیش کرتے ہیں تو ایسے میں ریاست کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہو گی کیونکہ اگر طاقتور حلقے اسی انداز میں اس کلٹ سے نمٹتے رہے تو یاد رہے یہ کلٹ تو کمزور نہیں ہو گا بلکہ ریاست کی جڑوں کو ضرور کمزور کر دے گا۔
سیاسی تجزیہ نگار حذیفہ رحمان دعویٰ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ”عمران دور کی اسٹیبلشمنٹ سے لاکھ اختلاف ہیں مگر ایک بات ماننا ہوگی کہ فیض،باجوہ اور عمران جو طے کرتے تھے،اس کی عمل داری میں ہر حد تک چلے جاتے تھے۔ایسا نہیں تھا کہ ایک نگراں وزیر اعلیٰ یا نگراں وفاقی وزیر کی خواہش پر عام انتخابات آگے جانے کی منصوبہ بندی شروع ہو جائے۔عدالتیں اس کلٹ کی مکمل سہولت کاری شروع کردیں۔جو ججز کل تک ادارے کی مرضی کے بغیر دن کا آغاز نہیں کرتے تھے ،آج وہ سب سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کلٹ کی سہولت کاری کیلئے آرڈرز جاری کر رہے ہیں۔عمران کو آپ نے جیل میں ڈال دیا ہے لیکن تمام یوٹیوبرز،پروپیگنڈا کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے کہ وہ عمران کلٹ کو زندہ رکھنے کیلئے جو مرضی کہتے رہیں مگر ریاست خاموش ہے؟کسی یوٹیوبر کو صرف اس لئے گنجائش دے دیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے کسی ایک دفتر کے قریب ہے۔یاد رکھیں کہ ایسے کلٹ ختم نہیں ہوتے،مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی ملک میں جلد از جلد بروقت انتخابات کرانے کے سب سے بڑے حامی ہیں لیکن جب ماتحت لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے تو کہیں نہ کہیں کوئی کمیونیکیشن گیپ ضرور ہے۔ادارے کے اندر بیٹھے ہوئے لوگ یاد رکھیں کہ اگر عام انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تو مسلم لیگ ن،پی پی پی یا جے یو آئی ف کو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا،سب سے زیادہ نقصان ملک اور ادارے کا ہو گا اور اس کا فائدہ کسی نگراں وزیر اعلی یا وفاقی وزیر کو نہیں بلکہ عمران خان کو ہو گا اور پھر آپ اس کلٹ کا مقابلہ کرنے کیلئے اکثریتی سیاسی جماعتوں کی سپورٹ بھی کھو دیں گے۔اس لئے ضروری ہے کہ اگر واقعی یہ کلٹ ریاست کی بقاء کیلئے خطرہ ہے تو واضح اور سیدھی پالیسی دیں اور پھر اس راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو کچلتے چلے جائیں اور اگر یہ کلٹ سیاسی اختلاف سے زیادہ کچھ نہیں ہے تو پھر اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں لیکن ہومیو پیتھی پالیسی فوراً ختم کریں۔