اسلام آباد(وقائع نگار خصوصی)سپریم کورٹ میں اسلام آباد کے علاقے فیض آباد میں 2017 کے دھرنے سے متعلق فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں پر سماعت کے دوران وفاقی حکومت اور تحریک انصاف نے بھی اپنی اپنی درخواست واپس لے لی جبکہ سپریم کورٹ نے اہم سوالات اٹھاتے ہوئے کیس کی سماعت یکم نومبر تک ملتوی کر دی۔
یہ بھی پڑھیں:دہشت گردی کے خلاف جنگ،آرمی چیف خیبر پختونخوا کی خواتین کی بہادری اور قربانیوں کے معترف
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ شیخ رشید کے وکیل وزیر بن گئے ہیں تو اپنا متبادل مقرر کر کے جائیں، پہلے کچھ باتوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں ،یہ ریگولر بینچ ہے خصوصی بینچ نہیں، نظرثانی درخواستیں فوری مقرر ہوتی ہیں لیکن یہ چار سال مقرر نہ ہوئیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ دینے والے ایک جج ریٹائرڈ ہو چکے، اس لیے اس بینچ کے سامنے نہیں لگا۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ ہم نظر ثانی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ درخواست کیوں واپس لے رہے؟ کوئی وجہ ہے؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کوئی خاص وجہ نہیں صرف نظرثانی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں،وفاق اس کیس میں دفاع نہیں کرنا چاہتا،چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اب کیوں واپس لینا چاہتے ہیں؟پہلے کہا گیا فیصلے میں غلطیاں ہیں،اب واپس لینے کی وجوہات تو بتائیں۔اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ نظر ثانی اپیل جب دائر کی گئی اس وقت حکومت اور تھی،چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے تحریری درخواست کیوں دائر نہیں کی؟میں اپنا بیان دے رہا ہوں۔وکیل پیمراحافظ احسان نے کہا کہ میں بھی اپنی نظر ثانی اپیل واپس لے رہا ہوں،چیف جسٹس نے کہا کہ کس کی ہدایات پر واپس لے رہے ہیں؟یوٹیوب چینلز پرتبصرے کئے جاتے ہیں۔دوران سماعت پی ٹی آئی نے بھی درخواست واپس لینے کی استدعا کر دی،وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم پی ٹی آئی کی درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے،چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کو درخواست واپس لینے کا اختیارہے؟اگر آپ فریق بننا چاہتے ہیں تو عدالت آپ کو اجازت دے گی،بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ نہیں،ہم اس کیس میں فریق نہیں بننا چاہتے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے کہا گیا تھا فیصلہ غلطیوں سے بھرا پڑا ہے،اب کیا فیصلے میں غلطیاں ختم ہو گئیں،کیا نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی کوئی وجہ ہے؟جو اتھارٹی میں رہ چکے،وہ ٹی وی اور یوٹیوب پر تقاریر کرتے ہیں،کہا جاتا ہے ہمیں سنا نہیں گیا،اب ہم سننے کے لیے بیٹھے ہیں،آکر بتائیں،ہم پیمرا کی درخواست زیر التو رکھیں گے،کل کوئی یہ نہ کہے ہمیں سنا نہیں گیا۔شیخ رشید کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی درخواست کی پیروی جاری رکھنے کی استدعا کی گئی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے نیا وکیل کرنا ہے یا کور دلائل دینے ہیں، اسے آئندہ سماعت پر دے دینا۔
درخواست گزار اعجاز الحق کے وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے،چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے تو صرف آئی ایس آئی کی رپورٹ پر کہا تھا کچھ سیاستدانوں نے غیر ذمہ دارانہ بیان دیے،ہم نے کسی کا نام نہیں لیا،آپ نے خود سے اخذ کر لیا آپ کا ذکر ہے۔چیف جسٹس نے اعجازالحق کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ آپ نے دھرنے کی حمایت نہیں کی،کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ درست نہیں تھی، کوئی بیان حلفی دے دیں کہ آپ کا موقف درست ہے،اٹارنی جنرل صاحب آپ سمیت سب پر جرمانہ کیوں نہ کیا جائے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالتی وقت ضائع کیا گیا ملک کو بھی پریشان کیے رکھا،اب آپ سب آ کر کہہ رہے ہیں کہ درخواستیں واپس لینی ہیں، ہم تو بیٹھے ہوئے تھے کہ شاید ہم سے فیصلے میں کوئی غلطی ہو گئی ہو۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ ملک صاحب آپ جیسے سینئر آدمی سے یہ توقع نہیں تھی،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا سارے اداروں نے یہ طے کر لیا ہے کہ جو فیصلے میں لکھا گیا وہ ٹھیک ہے،بنیادی حقوق کے تحفظ سے ہی ملک ترقی کر سکتا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہم یہ درخواستیں زیر التوا رکھ لیتے ہیں،کسی نے کچھ کہنا ہے تو تحریری طور پر کہے،یہاں سب خاموش ہیں اور ٹی وی پر کہیں گے کہ ہمیں سنا نہیں گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا کہ نظرثانی درخواستیں پہلے کیوں نہ لگیں،الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لکھیں ناں کہ ہمیں حکم آیا تھا کہ نظرثانی درخواست دائر کی تھی یہ بھی لکھیں کہ حکم کہاں سے آیا تھا،اگر آپ کہنا چاہتے ہیں کہ مٹی پاو، نظر انداز کرو تو وہ بھی لکھیں، 12 مئی کو کتنے لوگ مرے تھے؟کیا ہوا، اس پر بھی مٹی پاو؟ یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوتا نئی حکومت یا پرانی حکومت،حکومت حکومت ہی رہتی ہے پارٹی جو بھی ہو۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن بھی سابقہ یا موجودہ نہیں ہوتا،یہ ادارہ ہے،ہر ایک کا احتساب ہونا چاہیے،ہم خود سے شروع کر سکتے ہیں،سب سچ بولنے سے اتنا کیوں ڈر رہے ہیں،چند کے علاوہ باقی سب درخواستیں واپس لینا چاہتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد ہی ہونا چاہیے،چیف جسٹس نے کہا کہ بڑی دلچسپ بات ہے جنھیں نظرثانی دائر کرنا چاہیے تھی،انھوں نے نہیں کی۔گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف دائر پاکستان تحریک انصاف، وزارت دفاع،عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور دیگر کی نظر ثانی کی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی تھیں۔گزشتہ روز پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور اس سے ایک روز قبل انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے اپنی درخواستیں واپس لے لیں تھیں جب کہ درخواست دینے والے ایک اور فریق شیخ رشید کے وکیل امان اللہ کنرانی نے مقدمے کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست دی تھی۔