لاہور(خصوصی رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے ٹکٹ ہولڈر اور 9مئی واقعات کے الزام میں گرفتار میاں عباد فاروق کے کم سن بیٹے عمار فاروق کی موت دو روز سے سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بنی ہوئی ہے،تحریک انصاف سے وابستہ کارکنان اور رہنما ننھے عمار فاروق کی موت پر سخت غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے جہاں حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں وہیں پر اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کو بھی اس کا ذمہ دار گردان رہے ہیں،ایسے میں برطانوی خبر رساں ادارے ”بی بی سی اردو“ نے تہلکہ خیز رپورٹ شائع کر دی ہے جس سے سوشل میڈیا پر پھیلا پراپیگنڈا دم توڑ جائے گا۔
”پاکستان ٹائم“کے مطابق ”بی بی سی اردو“ پر شائع کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”پاکستان تحریک انصاف کے گرفتار کارکن اور ٹکٹ ہولڈر عباد فاروق کے آٹھ سالہ بیٹے عمار فاروق کی موت کی خبر نے ملک بھر میں جہاں سب کو غمزدہ کیا، وہیں ان کی موت کی وجوہات اور مرض سے متعلق متضاد دعوے کیے جا رہے ہیں۔عباد فاروق کے بھائی چوہدری تصور نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا آٹھ سالہ بھتیجا پنجاب پولیس کی جانب سے اپنے والد، والدہ اور دادای کی گرفتاری کے باعث ذہنی صدمے اور دکھ کے باعث بیمار ہو کر ابدی نیند سو گیا جبکہ دیگر اہلخانہ نے یہ بھی بتایا کہ عمار ایک غیر معمولی دماغی بیماری سیباکیوٹ سیکلورزنگ پیننسیفلائٹس(ایس ایس پی ای) میں مبتلا تھا۔یاد رہے کہ پی ٹی آئی رہنما عباد فاروق 9 مئی کے واقعات کے الزام میں زیر حراست ہیں۔عمار کی وفات پر سوشل میڈیا پر جہاں ریاست مخالف بیانات سامنے آئے ہیں، وہیں ان کی بیماری اور نفسیاتی حالت سے متعلق بھی مختلف تبصرے دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ان کے اہلخانہ اور پی ٹی آئی کے حامی صارفین حکومت پر تنقید کرتے ہوئے عمار کو پہنچے والے ذہنی صدمے کو ان کی موت کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا یہ سیباکیوٹ سیکلورزنگ پیننسیفلائٹس مرض ہے کیا؟کیا اس کا کوئی علاج ممکن ہے اور کیا کوئی انسان واقعی دکھ،جدائی کے احساس یا نفسیاتی صدمے سے مر سکتا ہے؟امریکہ کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف نیورولوجیکل ڈیزیز اینڈ سٹروک کے مطابق سیباکیوٹ سیکلورزنگ پیننسیفلائٹس(ایس ایس پی ای)بچوں اور نوجوانوں میں ہونے والا دماغی مرض ہے۔یہ خسرہ کا وائرل انفیکشن ہے جو دماغ کے ساتھ ساتھ مریض کے مرکزی اعصابی نظام (سی این ایس)کو متاثر کرتا ہے،یہ ایک غیر معمولی بیماری ہے جو دنیا کے تمام ممالک میں پائی جاتی ہے لیکن یہ زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں پائی جاتی ہے۔ایس ایس پی ای میں مبتلا زیادہ تر بچوں میں ابتدائی عمر،عام طور پر پیدائش سے لے کر دو سال تک کی عمر کے دوران خسرہ ہونے کی ہسٹری ہوتی ہے۔یہ وائرس جسم میں موجود رہتا ہے اور پھر چھ سے 12 سال کی عمر کے دوران ایک بار پھر متحرک ہو کر دماغ اور سینٹرل نروس سسٹم( سی این ایس)کو متاثر کرتا ہے۔خسرہ کے انفیکشن اور ایس ایس پی ای کے درمیان طویل وقفے کے باوجود محققین کا خیال ہے کہ دماغ کا انفیکشن خسرہ کے ابتدائی حملے کے فوراً بعد ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ بڑھتا ہے لیکن یہ کیوں برقرار اور بڑھتا رہتا ہے یہ ابھی تک واضح نہیں۔
بی بی سی اردو کے مطابق ایس ایس پی ای کی ابتدائی علامات واضح ہیں اور ان میں درج ذیل شامل ہیں،شعور اور ادراک کی کمی ہونا (جیسے یاداشت کی کمی)رویے میں تبدیلیاں (جیسے چڑچڑاپن)انسانی دماغ کے موٹر فنکشن میں خلل جس میں سر یا اعضا کی بے قابو حرکتیں شامل ہوتی ہیں جنھیں مائیوکلونک جرکس کہتے ہیں،دورے پڑ سکتے ہیں،کچھ لوگ اندھے ہو سکتے ہیں۔بیماری کے شدید درجے کے مراحل میں، لوگ چلنے کی صلاحیت کھو سکتے ہیں کیونکہ ان کے پٹھے اکڑ جاتے ہیں۔غشی کے دوروں کی حالت میں آہستہ آہستہ بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔اس مرض سے کیسے بچا سکتا ہے؟یہ مرض اب تک لا علاج ہے اور اس مرض کے باعث موت عام طور پر بخار،دل بند ہونے،یا خود مختار اعصابی نظام کو کنٹرول کرنے میں دماغ کی ناکامی کے باعث ہوتی ہے۔اس سے بچاو کا واحد علاج خسرہ کی ویکسنیشن ہے تاہم طبی ماہرین کے مطابق خسرہ کی ویکسین لگنے کے باوجود بھی یہ مرض ہو سکتا ہے۔جس شخص میں ایس ایس پی ای کی تشخیص ہوتی ہے، عموماً ایک سے تین سال کے اندر اس کی موت ہو جاتی ہے۔کچھ معاملوں میں مرض کے تیزی سے بگڑ جانے میں تین ماہ کے اندر بھی موت ہو سکتی ہے جبکہ بہت ہی کم مریض اس سے صحتیاب ہونے میں کامیاب ہوتے ہیں۔اس بارے میں دماغی و اعصابی امراض کے ماہر ڈاکٹر راو سہیل یاسین خان نے بی بی سی ے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایس ایس پی ای بیماری بنیادی طور پر خسرہ کے وائرل انفکیشن سے ہوتی ہے،یہ وائرس ایسے افراد،خصوصاً چھ سے 12 سال تک کے ایسے بچوں کے جسم میں غیر متحرک طور پر موجود ہوتا ہے،جنھیں پیدائش کے بعد دو سال کے عرصے کے دوران خسرہ ہوا ہو،یہ وائرس دوبارہ متحرک ہو کر انسانی دماغ کے خلیوں کو متاثر کرتا ہے،اس کی علامات میں بچے کے رویے میں تبدیلیاں،یادداشت کی کمی اور جسم میں غیر ارادی طور پر جھٹکے لگنا یا مرگی جیسے دورے پڑنا شامل ہوتے ہیں،یہ انسان کے مرکزی اعصابی نظام ( سی این ایس)کو متاثر کرتا ہے اور انسانی جسم میں دوڑنے والے کرنٹ کو متاثر کرتا ہے۔ جس سے مریض ذہنی طور پر مفلوج ہونا شروع ہو جاتے ہیں، جیسے جیسے مرض میں شدت آتی ہیں تو مریض مفلوج ہونا شروع ہو جاتا ہے،کھانا پینا بند کر دیتا ہے اور اس کے پٹھے اکڑ جاتے ہیں،اس کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں کیا گیا تاہم اس کی تشخیض کے لیے ریڑھ کی ہڈی سے پانی نکال کر ٹیسٹ کرنا،ایم آئی آر ٹیسٹ اور پی سی آر ٹیسٹ کیا جاتا ہے،اسی طرح دماغ میں دوڑنے والے کرنٹ کے ای ای جی ٹیسٹ سے اس کی تشخیص کی جا سکتی ہے، اگر بچے کو پیدائش کے وقت خسرہ کی ویکسین لگوا دی جائے تو اس مرض کے ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں تاہم اگر جسم میں موجود وائرس کسی اور وائرس کے ساتھ مل کر ایک نئی قسم اختیار کر لے تو بچہ اس مرض کا شکار ہو سکتا ہے۔کیا کوئی صحت مند بچہ اچانک اس مرض کا شکار ہو سکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر راو سہیل کا کہنا تھا کہ ایسا ممکن نہیں،بچے کو ایک دم شدید علامات ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ آہستہ آہستہ پہلے چڑچڑاپن،بھوک کم ہونا یا یادداشت کی کمی ہوتی ہے،اس کے بعد جسم میں جھٹکے لگنے شروع ہوتے ہیں۔تو کیا اگر کوئی بچہ اس مرض کا شکار ہے اور اسے کسی ذہنی دباو یا صدمے سے گزرنا پڑے یا کسی شدید دکھ کے باعث اس بیماری میں شدت آ سکتی ہیں؟اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر راو سہیل کا کہنا تھا کہ سائنسی و طبی طور پر یہ واضح ہے کہ یہ مرض نہ کسی صدمے و دکھ کی وجہ سے ہوتا ہے اور نہ ہی کسی صدمے یا ذہنی تناو سے اس کی علامات میں شدت آتی ہے،اس قسم کے مرض کا شکار بچوں کو اپنے ارد گرد کے ماحول کا زیادہ اداراک نہیں ہوتا۔کمسن عمار کے اہلخانہ کا دعوی ہے کہ ان کی وفات والد کی جدائی کے دکھ اور صدمے کے باعث ہوئی لیکن کیا کوئی انسان واقعی دکھ یا جدائی کے احساس سے مر سکتا ہے؟اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم نے ماہر نفسیات ڈاکٹر معصومہ اعجاز سے بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر عام اور سادہ الفاظ میں اس کا جواب دیا جائے تو ایسا ممکن نہیںلیکن ہر معاملے میں یہ صورتحال مختلف ہو سکتی ہے،اگر کوئی کسی شدید مرض کا شکار ہے اور اسے کسی دکھ، یا جدائی کی کیفیت کے احساس کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کی ہلاکت تو نہیں ہو سکتی لیکن اس کے طبی مرض کی علامات میں معمولی اضافہ ہو سکتا ہے،نفسیات کی سائنس کے مطابق اگر کسی کو طویل عرصے تک کسی دکھ یا غم کی کیفیت کا سامنا رہتا ہے تو اس شخص کی جسمانی صحت پر اثرات تو مرتب ہو سکتے ہیں لیکن اس سے موت واقع نہیں ہو سکتی، نفسیاتی اثرات یا ذہنی تناو،بلند فشار خون،ذیابیطس جیسے امراض کی وجہ بن سکتے ہیں اور ان کے باعث کوئی جسمانی عارضہ ہو سکتا ہے لیکن یہ براہ راست کسی کی موت کی وجہ نہیں بن سکتے،اگر کسی بچے کو پہلے سے ہی کوئی عارضہ لاحق ہو خصوصاً اعصابی یا دماغی تو ایسی صورت میں کوئی صدمہ، دکھ یا جدائی کی کیفیت کا احساس اس کی موت کی اس وقت تک وجہ نہیں بن سکتا جب تک جسمانی عارضہ نہ بگڑے، کوئی بڑا ہو یا بچہ،وہ چڑچرے پن،غصہ،جوش،کم نیند،کھانے پینے میں کمی، تشدد، سماجی تنہائی کا شکار ہو سکتا ہے جس سے اس کی جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے لیکن اس سے فوری طور پر کسی کی موت نہیں ہو سکتی۔
پاکستان کے سوشل میڈیا پر عمار فاروق کے اہلخانہ سے منسوب مختلف دعوے اور الزامات سامنے آ رہے ہیں۔کوئی یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ عمار کو یہ مرض پہلے سے لاحق تھا تا ہم اس میں شدت والد کی جدائی کے دوران آئی تو کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ عمار بالکل صحت مند تھا اور اس کو یہ مرض اس کے والد کی جدائی کے باعث لگا اور وہ ان کی جیل سے واپسی کا انتظار کرتے کرتے ابدی نیند سو گیا۔اس سلسلے میں ہم نے عمار کے اہلخانہ سے جاننے کی کوشش کی کہ عمار کی طبیعت کب خراب ہوئی تاہم اس سلسلے میں اہلخانہ کے موقف میں بھی تضاد پایا گیا۔اب سے چند ہفتے قبل بی بی سی نے جب عمار کی صحت سے متعلق بات کی تھی تو ان کے اہلخانہ نے بتایا تھا کہ ان کی طبیعت کافی عرصے سے خراب تھی۔عمار کو پہلے پہل جسمانی توازن قائم رکھنے میں مشکلات کا سامنا تھا،پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا جسم اکڑنے لگا تھا۔اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا۔انھیں اونچی آواز اور شور سے خوف یا تکلیف ہوتی تھی۔ان کے گھر والوں نے اس وقت بتایا تھا کہ ایسی حالت میں ان کی والدہ ہی ان کی دیکھ بھال کرتی تھی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے آج ان کے تایا چوہدری تصور کا کہنا تھا کہ انھیں یاد نہیں پڑتا کہ عمار کبھی بچپن میں بیمار پڑا ہو یا اسے خسرہ ہوا ہو،عمار اپنے والد کی گرفتاری سے قبل بالکل صحت مند تھا،عمار اپنے والد کی گرفتاری اور پھر دادی اور والدہ کو گرفتار کیے جانے پر ڈپریشن اور ذہنی تناو کا شکار ہوا،اس سے قبل وہ بالکل صحت مند تھا لیکن پھر سکول سے اس کے رویے میں تبدیلی اور طبیعت خراب ہونے کی کال موصول ہوئی تھی،ہم نے سمجھا کہ بچہ پریشان ہے لیکن پھر ایک دن وہ اپنا سکول بیگ بھول آیا تو دوسرے دن اپنی قمیض اتار کر سکول چھوڑ آیا تھا،اس کے بعد ہم نے اس مسئلے کو سنجیدہ لیا اور اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو ڈاکٹروں نے کہا کہ بچے نے کوئی ذہنی دباو لیا ہے جس سے اس کا دماغ متاثر ہوا اور اس کی رگیں سکڑ گئیں ہے،اس دن کے بعد سے عمار صحتیاب نہ ہو سکا اور دن بدن اس کی صحت خراب ہوتی گئی،عمار کو پہلے جسمانی جھٹکے لگنے شروع ہوئے،پھر اس کے جسم کے پٹھے اکڑ گئے اور اس نے بولنا بھی بند کر دیا۔انھوں نے عمار کے معالج کی جانب سے بتائی گئیں وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ماہر دماغی امراض ڈاکٹر ٹیپو سلطان نے عمار کا معائنہ کر کے بتایا تھا کہ پیدائش سے دو سال کی عمر کے دوران عمار کو خسرہ ہوا ہو گا جس کی وجہ سے وہ ایس ایس پی ای مرض کا شکار ہوا،ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح پنجاب پولیس نے گھر پر چھاپے مارے اور عمار کے والد،والدہ اور دادی کو گرفتار کیا گیا اس سے بچے کے ذہن پر اثر ہوا اور اس کی طبیعت بگڑی۔