کوپن ہیگن(مانیٹرنگ ڈیسک)ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں قرآن پاک کی بے حرمتی روکنے کی کوشش کرنے والی عراقی خاتون صحافی نے اپنے اوپر چوری لے الزامات اور سعودی عرب سے انعام ملنے کی خبروں کی تردید کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:بھارت نے بے شرمی کا ایک اور ریکارڈ توڑ دیا
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق عراقی نژاد قدس السامرائی نامی خاتون نے ڈنمارک اور سویڈن میں صحافت کی تعلیم حاصل کی ،ان کی ایک ویڈیو حال ہی میں وائرل ہوئی تھی جس میں انہیں بے حرمتی کرنے والے افراد سے قرآن پاک چھیننے کی کوشش کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دو مرد قرآن پاک کا نسخہ ایک سٹول پر رکھے ہوئے ہیں، ٹی شرٹ اور جنیز میں ملبوس ایک جواں سال خاتون جس نے اپنے بال مردوں کی طرح چھوٹے کٹا رکھے ہیں ان تک پہنچتی ہے اور قرآن پاک کا نسخہ اٹھا لیتی ہے۔وہ قرآن پاک کو لے کر وہاں سے جانا چاہتی ہے لیکن دونوں مردوں میں سے ایک اس کا گلہ دبا لیتا ہےاور اسے پکڑ کر زمین پر گرا دیتا ہے۔اس دوران موقع پر موجود ایک پولیس اہلکار خاتون اور مرد کو الگ کرتا ہے اور پھر قران پاک کا نسخہ خاتون سے چھین کر دونوں اسلام دشمنوں کے حوالے کر دیتا ہے جو بعد میں قرآن پاک کی بے حرمتی کرتے ہیں۔قرآن پاک کو بے حرمتی سے بچانے کی کوشش میں بہادر خاتون نے دو مردوں کے ساتھ جھگڑتے ہوئے بار بار ”القرآن“ کا نعرہ لگایا،اس بہادر خاتون صحافی صحافی کو دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے تاہم اب اس جرات مند خاتون پر چوری کا الزام عائد کر دیا گیا ہے۔
نقيب الصحفيين العراقيين يوجه بسرعة إصدار بطاقة دولية للصحفية قدس السامرائي التي إنقضت على محرقي القرآن وعلم بلادها في الدنمارك
كوبنهاكن. خاص
وجه نقيب الصحفيين العراقيين مؤيد اللامي بسرعة إصدار بطاقة صحفية دولية لقدس السامرائي التي إنقضت على مجموعة متطرفة في الدانمارك كانت… pic.twitter.com/YzZcbS6TIZ— قدس السامرائي (@aldnmark) July 29, 2023
یہ بھی پڑھیں:سعودی وزیر خارجہ کاسویڈش ہم منصب کو فون،امت مسلمہ کے جذبات کی حقیقی ترجمانی کر دی
اپنی ایک ٹوئٹ میں بہادر خاتون صحافی قدس السامرائی کا کہنا تھا کہ میں نے اسلام اور عراقی پرچم کی حرمت محفوظ کرنے کے لئے یہ اقدام اٹھایا تھا،حالانکہ میں جانتی تھی کہ میں اس وقت ڈنمارک میں انتہا پسندوں اور اسلام سے نفرت کرنے والوں کے درمیان تنہا ہوں،کیا یورپی آئین آسمانی کتابوں کو جلانے کی اجازت دیتا ہے؟۔انہوں نے کہا کہ میں اپنی ایک دوست سے ملنے کے لئے اس جگہ گئی ہوئی تھی کہ میں نے دیکھا کہ دو افراد ایک قرآن پاک کو جلا رہے ہیں جبکہ قرآن پاک کے دوسرے نسخے پر جوتے رکھے ہوئے ہیں،جس پر میں نے کسی چیز کی پرواہ کئے بغیر ان انتہا پسندوں سے قرآن کریم چھینا تو انہوں نے مجھ پر تشدد شروع کر دیا،مجھے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا،میرا گلہ دبا کر میرا سانس روکنے کی کوشش کی گئی،میں نے اپنی مدد کے لئے وہاں موجود پولیس اہلکار کو پکارا تو اس نے مجھے ان سے تو بچایا لیکن مجھ سے قرآن کریم چھین کر دوبارہ انہیں جلانے کے لئے دے دیا گیا۔صحافی قدس السامرائی کا کہنا تھا کہ میں نے مار پیٹ اور تشدد کے الزام میں انتہا پسندوں کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی ہے جبکہ پولیس سٹیشن میں درج کرائی گئی دوسری شکایت یہ ہے کہ مجھے میری مرضی کے بغیر فلمایا گیا۔انہوں نے کہا کہ مجھے عدالت میں طلب کیا گیا ہے کہ میں نے قرآن کریم کو جلانے سے کیوں بچایا؟مجھ پر چوری کا جھوٹا الزام عائد کیا گیا حالانکہ آزادی اظہار رائے کا نام لے کر قرآن کریم تو وہ انتہا پسند جلا رہے تھے جس پر میں نے بھی آزادی اظہار کے طور پر قرآن کریم کو جلانے سے بچانے کی کوشش کی۔
واضح رہے کہ قدس السامرائی کے سویڈش یا ڈینش ہونے پر قیاس آرائیاں شروع ہوئیں تو انکشاف ہوا کہ وہ دراصل عراقی نژاد ہیں حالانکہ کچھ لوگوں نے قدس السامرائی کو ایک ہیرو قرار دیا لیکن جلد ہی انہیں مختلف الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ایک طرف آن لائن گردش کرنے والی ایک دستاویز میں دعویٰ کیا گیا کہ انہیں سعودی سفارت خانے کی جانب سے 6000 ڈالرز ادا کیے۔وہیں انہیں چوری کے ایک مقدمہ کا بھی سامنا ہے،جس پر انہیں ڈنمارک کی عدالت سے سزا ملنے کا امکان ہے حالانکہ بعد میں فونٹ اور دستخطوں میں فرق کی بنیاد پر مذکورہ سعودی دستاویز کو جعلی قرار دیا گیا۔دریں اثنا عراقی صحافیوں کی سنڈیکیٹ نے قدس السامرائی کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے انہیں پریس کارڈ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔خیال رہے کہ اس واقعے کے بعد ایک ہفتے کے دوران مزید تین مرتبہ کوپن ہیگن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کی گئی جن میں سے ایک مرتبہ پاکستانی سفارتخانے کے سامنے قرآن پاک کو شہید کیا گیا۔ مجموعی پر چار واقعات پیش آئے،عراق،مصر،ترکی اور پاکستان کے سفارتخانوں کے سامنے قرآن پاک کی بے حرمتی کی گئی۔