نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک)ہندوستان میں مودی سرکار کی سرپرستی میں ہندوانتہا پسندی اپنے عروج پر پہنچ رہی ہے جبکہ اقلیتوں خصوصا مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ سے تنگ ہوتا جا رہا ہے ،بھارت میں اب مسلمانوں کا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہونے لگا ہے، افغان طلباءکیلئے بھارت کی مسلم دشمن پالیسیاں سامنے آنی شروع ہو گئی ہیں۔
”پاکستان ٹائم“ کے مطابق بھارت میں مذہبی جنونیت اپنے عروج پر ہے،مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف ہندو انتہا پسندی کے اثرات مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں ،مودی سرکار ہندو انتہا پسندی پر قابو پانے کی بجائے اسے فروغ دے رہی ہے،دوسری طرف افغان طلباء کے لیے بھارت کی غیر متزلزل حمایت ایک دکھاوے سے زیادہ کچھ نہیں،مودی حکومت نے افغان طلبا و شہریوں کو پہلے سے جاری تمام ویزے منسوخ کر دیئے ہیں۔بھارت کی جانب سے ویزا جاری کرنے سے انکار کے باعث افغان طلباء کیلئے آن لائن امتحانات ممکن نہیں۔ ہندوستانی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے 2,500 سے زیادہ افغان طلباء افغانستان میں ہی پھنس کے رہ گئے۔افغان طلباء کے احتجاج پر جے شنکر نے سیکورٹی خدشات اور ویزا سسٹم کی کارکردگی کا بہانہ دے دیا۔
یونیورسٹیوں نے کیمپس میں واپس نہ آنے والوں کے داخلے منسوخ کرنا شروع کر دیے ہیں۔جس سے خواتین طالبات سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔چندی گڑھ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کی 22 سالہ طالبہ یاسمین عظیمی کی ویزا درخواست تین بار مسترد ہو چکی ہے۔ 2022 میں بھارت کی جانب سے افغان طلباء کو صرف 300 ای ویزا جاری کیے گئے،اس دوران، پاکستان نے افغان طلباء کو 4,500 مکمل فنڈڈ وظائف کی پیشکش کی ہے۔افغان طالب علم کا کہنا تھا کہ بھارت ہمارا دوسرا گھر ہے لیکن اس نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا۔کونسل آن فارن ریلیشنز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی)حکومت میں ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک میں شدت آئی ہے۔افغان طالب علموں نے الزام لگایا ہے کہ یونیورسٹی کے حکام اکثر ان کو ممکنہ منشیات فروش اور دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔