stay order

فوجی عدالتوں میں ٹرائل پر حکم امتناع کی استدعا مسترد

اسلام آباد (کورٹ رپورٹر)سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے 9 مئی کے بعد گرفتار ہونے والے تمام افراد کا مکمل ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔

”پاکستان ٹائم“کے مطابق فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران عدالت نے ملٹری کورٹس میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف فوری حکم امتناع کی درخواست مسترد کرتے ہوئے 9 مئی کے واقعات کے بعد گرفتار ہونے والے تمام افراد کا ڈیٹا طلب کر لیا۔سردار لطیف کھوسہ نے سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے خلاف حکم امتناع کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے گھروں پر حملے ہو رہے ہیں تاہم چیف جسٹس نے یہ استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آپ ریلیکس کریں جذباتی نہ ہوں،ہر چیز کا جواب حکم امتناع سے نہیں دیا جاتا،سویلین عدالت ہو یا فوجی عدالت ملزمان کو وکلا مقرر کرنے کا حق حاصل ہے،ہم حکم امتناع جاری نہیں کر سکتے،وکلاء سائلین کا دفاع کرتے ہیں تاہم وکلاء کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کتنے لوگ عام جیلوں اور کتنے فوج کی تحویل میں ہیں؟تفصیل دیں،آپ صحافیوں کی بات کرتے ہیں میں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا،صحافیوں کو رہائی ملنی چاہیے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ سنیں تو صحیح ہم کیا کرنے لگے ہیں؟وکلا کو ہراساں کیا جا رہا ہے،ایک وکیل کو 6 دن تک اغوا رکھا گیا اور ایک کو تھانے لے گئے،لطیف کھوسہ صاحب کے گھر فائرنگ تک ہو چکی ہے ،اٹارنی جنرل صاحب ہم آپ کو سنے بغیر فیصلہ نہیں دیں گے، 4 ہزار سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے،اس وقت آفیشل میٹنگز کی جاسوسی ہو رہی ہے،میٹنگز،ٹیلی فون گفتگو کی نگرانی ہو رہی ہے،فلمیں بن رہی ہیں،ٹیپ اور ریکاڈنگز ہو رہی ہیں،آئین نے جو پرائیویسی کا حق دیا ہے وہ بھی محفوظ نہیں،صحافی آزاد نہیں ہیں اور یہ ٹھیک نہیں ہے،بتائیں کہ کتنے افراد کو اب تک گرفتارکیا گیا اور انہیں کہاں رکھا گیا؟خواتین کو کہاں رکھا جا رہا ہے؟بچوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے؟پورا معاشرہ ٹراما کا شکار ہے،لوگوں کی گفتگو ریکارڈ کی گئی،ان کی ذاتیات میں مداخلت کی گئی، یہ عوام کی آزادی کا معاملہ ہے،ان سے پوچھیں کہ کتنے افراد کو گرفتار کیا گیا ہے؟تمام گرفتار افراد کے درست اعداد و شمار پیش کیے جائیں،کیس کو جلد نمٹانا چاہتے ہیں،کوئی حکم امتناع جاری نہیں کر رہے۔۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ کا کیس تو صرف یہ ہے کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں، سمجھ نہیں آ رہی آپ آرمی ایکٹ کی شقوں کو کیوں چیلنج کر رہے ہیں؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جب انسداد دہشت گردی کی عدالت کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سننے کا اختیار نہیں تو وہ کسی فرد کو فوج کے حوالے کر سکتی ہے؟بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے کیس کی مزید سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی۔

سب سے معتبر اور سب سے مستند خبروں، ویڈیوز اور تجزیوں کے لیے ”پاکستان ٹائم‘ کے فیس بک اور ٹوئٹر پیج کا وزٹ کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں