اسلام آباد(وقائع نگار خصوصی)وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار مالی سال 24-2023 کے لیے 145 کھرب حجم کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث ملک کو بدترین معاشی حالات کا سامنا ہے اور معیشت کا بیڑہ غرق ہوا،گزشتہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے موجودہ حالات میں چیلنجز کا سامنا ہے،گزشتہ حکومت نے عالمی مالیاتی اداررے(آئی ایم ایف) معاہدے سے روگردانی کی اور ملکی ساکھ کو نقصان پہنچایا،گزشتہ حکومت نے نئی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھانے کا کام کیا۔
”پاکستان ٹائم“ کے مطابق سپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ پیش کرنا شروع کر تے ہوئے کہا کہ بجٹ پیش کرنے کا اعزاز حاصل کرنے پر خدا کا شکر گزار ہوں، مالی سال 24-2023 کے بجٹ کے اعداد و شمار پیش کرنے سے پہلے 2017 میں نواز شریف کی حکومت اور 2022 میں پی ٹی آئی کی نااہل حکومت کے بجٹ کا تقابلی جائزہ پیش کروں گا، مالی سال 17-2016 میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو 6.1 فیصد تک پہنچ چکی تھی، مہنگائی 4 فیصد تھی، غذائی اشیا کی مہنگائی صرف 2 فیصد تھی،پالیسی ریٹ ساڑھے 5 فیصد، سٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیا میں نمبر ون اور پوری دنیا میں پانچویں نمبر پر تھی، پاکستانی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن تھی اور پاکستان 2020 تک جی-20 ممالک میں شامل ہونے والا تھا، پاکستانی کرنسی مستحکم اور زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر کے ریکارڈ سطح پر تھے،بجلی کے نئے منصوبوں سے 12-16 گھنٹوں کی لوڈشیدنگ سے نجات مل چکی تھی،انفراسٹرکچر سسٹم،روزگار کے مواقع اور آسان قرضوں جیسے عوام دوست منصوبوں کی تکمیل کی گئی تھی،دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جاچکا تھا،ملک میں امن و امان اور سیاسی استحکام تھا،ان حالات میں آناً فاناً سازشوں کے جال بچھا دیے گئے،اگست 2018 میں ایک سلیکٹڈ حکومت وجود میں آئی،اس سلیکٹڈ حکومت کی ناکام معاشی کارکردگی کے سبب پاکستان 24ویں بڑی معیشت کے درجے سے گر کر 47ویں نمبر پر آ گیا۔انہوں نے کہا کہ جناب سپیکر ! آج پاکستان معاشی تاریخ کے مشکل ترین مرحلے سے گزر رہا ہے،میں انتہائی وثوق سے کہنا چاہوں گا کہ آج کی خراب معاشی صورت حال کی اصل ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت ہے، موجودہ حالات پچھلی حکومت کی معاشی بد انتظامی،بدعنوانی،عناد پسندی اور اقربا پروری کا شاخسانہ ہیں لہذا یہ مناسب ہوگا کہ میں مالی سال 22-2021 تک کی معاشی صورتحال کا ایک جائزہ اس معزز ایوان کے سامنے رکھوں۔
وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت نے حقائق نے کو مسخ کیا، اتحادی جماعتوں کے بھرپور تعاون کے مشکور ہیں، موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کو پروگرام کو بحال کرنے کے لیے اقدامات کیے، ہم نے سیاست نہیں بلکہ ریاست بچاو کی پالیسی اپنائی،قرضوں میں اضافے کی وجہ سے سود کی ادائیگی میں بے تحاشا اضافہ ہوا،گزشتہ دور میں قرضے میں سالانہ 129 ار بروپے ہوا،جبکہ پی ٹی آئی کے دور میں گردشی قرضے میں 329 ارب روپے کا اضافہ ہوا، ہم نے کفایت شعاری کی پالیسی بنائی۔
انہوں نے کہا کہ اب میں معزز ایوان کے سامنے رواں مالی سال 23-2022 کے نظر ثانی شدہ بجٹ کے اہم نکات پیش کرتا ہوں،جناب سپیکر !پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی غلط معاشی حکمت عملی کے باعث کرنٹ اکاونٹ کا خسارہ 17.5 ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے تھے،آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل پاکستان کے لیے انتہائی اہم تھی لیکن پی ٹی آئی حکومت نے اس نازک صورتحال میں حالات کو جان بوجھ کر خراب کیا،پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں سبسڈی کے ذریعے کمی کردی،ایسے اقدامات اٹھائے جو کہ آئی ایم ایف کی شرائط کی صریحاً خلاف ورزی تھی۔یہاں تک کہ اس ضمن میں آپ کو یاد ہو گا کہ سابقہ حکومت کے وزیر خزانہ نے فون کر کے دو صوبائی وزرائے خزانہ پر شدید دباو ڈالا کہ وہ اپنا قومی فریضہ انجام نہ دیتے ہوئے آئی ایم ایف کے پروگرام کو سبوتاژکریں۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ اقدامات نئی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھانے کے مترادف تھے،ان اقدامات نے نہ صرف مالی خسارے میں اضافہ کیا بلکہ حکومت پاکستان اور آئی ایم ایفکے تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا۔اس پر ستم ظریفی یہ کہپی ٹی آئی نے تمام حالات کی ذمہ داری نئی حکومت پر ڈالنے کی کوشش کی،یہ کوشش محض چور مچائے شور کے مترادف تھی،ان کو یقین تھا کہ معاشی حالات اتنے خراب ہو جائیں گے کہ کوئی پاکستان کو ڈیفالٹ سے نہیں بچا سکے گا لہذا وہ حقائق کو مسخ کر کے ان کی ذمہ داری آنے والی حکومت پر ڈالنا چاہتے تھے،یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ طرز عمل تھا،کسی محب وطن، سیاسی جماعت کو اس طرح کا طرز عمل زیب نہیں دیتا،اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور وزیراعظم شہباز شریف اور اتحادی جماعتوں کے بھر پور تعاون سے ایسے معاشی فیصلے کیے جارہے ہیں جن کی وجہ سے ان ملک دشمن لوگوں کے عزائم پورے نہیں ہو پار ہے،خدائے بزرگ و برتر نے نہ صرف پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا بلکہ ان سازشی عناصر کو عوام کے سامنے بے نقاب کیا۔
انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال میں ایف بی آرکے محاصل 7 ہزار 200 ارب روپے کے لگ بھگ رہنے کا امکان ہے،جس میں صوبوں کا حصہ 4,129 ارب روپے ہوگا، وفاقی حکومت کا نان ٹیکس ریونیو ایک ہزار 618 ارب روپے ہونے کی توقع ہے،وفاق کے محاصل 4 ہزار 689 ارب روپے ہوں گے،کل اخراجات کا تخمینہ 11,090 ارب روپے ہے، پی ایس ڈی پی کی مد میں اخراجات 567 ارب روپے تک رہنے کا امکان ہے،دفاع پر کم و بیش ایک ہزار 510 ارب روپے خرچ ہوں گے،سول حکومت کے مجموعی اخراجات 553 ارب،پنشن پر 654 ارب روپے سبسڈیز کی مد میں ایک ہزار 93 ارب روپے اور گرانٹس کی مد میں 1,090 ارب روپے خرچ ہوں گے،سرکاری ملازمین کی پنشن میں اضافہ کیا جارہا ہے،سرکاری ملازمین کی کم سے کم پنشن 10 ہزار سے بڑھا کر 12 ہزار کی جارہی ہے،وفاقی حدود میں کم سے کم اجرت 32 ہزار روپے کی جارہی ہے، صوبے اس حوالے سے اپنا فیصلہ کریں گے،ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیوٹیوٹ (ای او بی آئی)کے ذریعے پنشن حاصل کرنے والے پنشنرز کی کم سے کم پنشن کو 8500 روپے سے بڑھا کر 10ہزار روپے کرنے کی تجویز ہے،مقروض افراد کی بیواوں کے 10لاکھ روپے کے قرضے حکومت ادا کرے گی،قومی بچت کے شہداء اکاونٹ میں ڈپازٹ کی حد 50 لاکھ روپے سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کی جارہی ہے،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے بجٹ کو 360 ارب روپے سے بڑھا کر 400ارب کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت کی معاشی حکمت عملی کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت ان کے دور میں مالی خسارے کا خطرناک حد تک بڑھنا تھا۔ مالی سال 22-2021 کا خسارہ GDP کے 7.9 فیصد کے برابر جبکہ Primary Deficit جی ڈی پی کے 3.1 فیصد تک پہنچ چکا تھا۔ موجودہ اتحادی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ حکومت کو ا±س وقت بھی علم تھا کہ پاکستان کو معاشی بحالی کے لیے انتہائی تکلیف دہ اقدامات کرنے پڑیں گے جس کی وجہ سے عوام کو مہنگائی اور غربت میں اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ روپے کی قدر میں کمی اور Interest Rate میں تیزی سے اضافے کے نتیجے میں معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ حکومت نے “سیاست نہیں ریاست بچاو پالیسی پر عمل کیا، اپنی سیاسی ساکھ کی قربانی دے کر معیشت کی بحالی کو ترجیح دی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ جناب سپیکر !-6 جون 2018 میں پاکستان کا Public Debt تقریباً 25 ٹریلین روپے تھا،پی ٹی آئی کی معاشی بدانتظامی اور بلند ترین بجٹ خساروں کی وجہ سے یہ قرض مالی سال 22-2021 تک 49 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا تھا، اس طرح پچھلے چار سالہ دور میں اتنا قرض لیا گیا جو 1947 سے 2018 تک یعنی 71 سال میں لیے گئے قرض کا 96 فیصد تھا۔اس طرح اس عرصہ میں 100 فیصد سے بڑھ کر 30 ٹریلین سے 60 ٹریلین روپے پر پہنچ گیا
Public Debt and Liabilities ۔ جون 2018 میں External Debt and Liabilities 95 ارب ڈالر تھیں۔ جون 2022 تک یہ 130 ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھیں۔قرضوں کے مجموعی حجم میں اس قدر اضافے کی وجہ سے حکومت پاکستان کے Interest Expenditure میں بے پناہ اضافہ ہوا اور نتیجتاً پاکستان کی معیشت Debt Servicing کی وجہ سے بہت زیادہ Vulnerable ہوگئی۔جناب سپیکر ! پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کو 2013 میں 503 ارب روپے کا گردشی قرضہ ورثے میں ملا جو کہ مالی سال 2018 تک بڑھ کر 1148 ارب روپے پر پہنچ گیا۔ یعنی 5 سالوں میں گردشی قرضوں میں 645 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ یعنی 129 ارب سالانہ بڑھا۔ جبکہ پی ٹی ا?ئی حکومت کے غیر سنجیدہ رویوں اور بدنظمی کی وجہ سے توانائی کا شعبہ شدید بحران کا شکار ہوا۔ پی ٹی آئی کے 4 سالہ دور حکومت میں گردشی قرضوں میں 1319 ارب روپے کا اضافہ کے ساتھ یہ 1148 ارب سے بڑھ کر 2467 ارب روپے پر پہنچ گیا۔ یعنی سالانہ 329 ارب روپے بڑھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جناب سپیکر !-8 بجٹ خسارہ پاکستان کے معاشی مسائل میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ پی ٹی آئیحکومت ٹیکس وصولی کے نظام میں بہتری لانے میں یکسر ناکام رہی جبکہ اخراجات میں بے پناہ اضافہ کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے چار سالہ دور میں جی ڈی پی کے تناسب سے اوسط بجٹ خسارہ پاکستان مسلم لیگ ن کے پانچ سالہ دور سے تقریباً دو گنا تھا۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے خسارے کو کم کرنے کے لیے کفایت شعاری سے کام لیا۔ Austerity Measures لیے گئے، Untargeted Subsidies کو بہت حد تک ختم کیا گیا اور Grants کی مد میں پچھلے سال کے مقابلے میں اخراجات میں کمی کی گئی۔ ان اقدامات کے نتیجے میں بجٹ خسارہ پچھلے مالی سال میں جی ڈی پی کے 7.9 فیصد سے کم ہوکر رواں مالی سال میں جی ڈی پی کا 7.0 فیصد ہو گیا ہے۔ اس طرح بجٹ خسارے میں ایک سال میں جی ڈی پی کے تقریباً 1 فیصد کے برابر کمی لائی گئی۔ یاد رہے کہ خسارے میں یہ کمی Interest Expenditure میں ہوش ربا اضافے کے باوجود کی گئی جبکہ Primary Deficit کو صرف ایک سال کی مدت میں جی ڈی پی کے 3.1 فیصد سے کم کر کے 0.5 فیصد پر لایا گیا۔ یعنی 2.6 فیصد کے برابر کمی ہوئی۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ جناب سپیکر ! یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج کی معاشی صورتحال اور عام آدمی کے لیے مشکلات پی ٹی آئی حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں، بدعنوانیوں اور ناکامیوں کا نتیجہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ پاکستان کی عوام اس بات سے پوری طرح اآگاہ ہو چکے ہیں کہ موجودہ معاشی مشکلات اور مہنگائی کی مکمل ذمہ دار گزشتہ حکومت ہے۔ ماضی کی سلیکٹڈحکومت نے اپنے سیاسی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے ملک کی معیشت کو شدید نقصان سے دوچار کیا، وزیر اعظم شہباز شریف کی دور اندیش قیادت میں حکومت نے مشکل ترین حالات میں حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی۔ حکومت نے اپنے سیاسی نقصانات کی پرواہ کیے بغیر ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا۔ میری گزارش ہے کہ پاکستان کی عوام یہ پہچان لے کہ کس نے ملک کو بچانے کی کوشش کی اور کون پاکستان کی تباہی کا باعث بنتا رہا۔جناب اسپیکر ! اس ضمن میں 9 مئی کو رونما ہونے والے المناک، شرمناک، ملک دشمن واقعات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ سیاسی جماعت کا لبادہ اوڑھے مسلح دہشت گرد جتھوں نے پاکستان کی سالمیت ، ساکھ اور قومی وقار کو مجروح کرنے کی گھناونی اور منظم سازش کی۔ پاک افواج کے شہداءکی قربانیوں کو یکسر نظر انداز کیا اور ا±ن کی یادگاروں کی بے حرمتی کا جرم کیا ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ دفاعی تنصیبات کو بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ ایسے ملک دشمن عناصر اپنی ناپاک حرکتوں کی وجہ سے خود ہی بے نقاب ہو چکے ہیں۔ یہ گروہ کسی صورت بھی نرمی اور رحم دلی کے حقدار نہیں۔ ایسے تمام عناصر کو پاکستان کے قوانین کے مطابق سخت سے سخت سزائیں دی جانی چاہیں تاکہ آئندہ کسی کو بھی ایسے ناپاک عزائم کے ساتھ ملک دشمن سرگرمیوں میں حصہ لینے کی جرات نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ جناب سپیکر ! ملکی معیشت کو پچھلے ایک سال کے دوران کئی اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ پچھلے سال پاکستان کی عوام خاص طور پر صوبہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے عوام کو سیلاب کی ناگہانی آفت کا سامنا کرنا پڑا۔ سیلاب کی وجہ سے ملکی املاک اور معاشی نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ عوام کی بحالی اور آبادکاری کے لیے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے بھر پور طریقے سے حصہ لیا۔مزید برآں اقوام متحدہ کے ادارے ایف اے او کے تخمینے کے مطابق سال 2021 کے مقابلے میں سال 2022 کے دوران مبین الاقوامی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں 14.3 فیصد کا اضافہ ہوا۔ پاکستان تیل، گندم، دالیں خوردنی تیل اور کھاد درآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہے جس کی ہمیں زرمبادلہ میں ادا ئیگی کرنا پڑتی ہے اور یہ مہنگائی میں اضافے کا باعث بنا۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی صورتحال جس میں یوکرین کی جنگ، عالمی سطح پر تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور مغربی ممالک میں شرح سود میں اضافہ نے ملک کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ کیا۔ پاکستان کی معیشت کا دوسرا بڑا مسئلہ (Current Account Deficit (CAD ہے۔ PTI حکومت کی وجہ سے مالی سال 22-2021 میں CAD 17.5 ارب ڈالر ہو گیا تھا۔ موجودہ حکومت کے بروقت اقدامات سے CAD میں تقریباً 77 فیصد کمی آئی۔ انشاءاللہ مالی سال 2022-23 کے اختتام پر یہ خسارہ کم ہو کے تقریباً 4 ارب ڈالر رہ جائے گا۔ اسی طرح تجارتی خسارہ جو کہ سال 22-2021 میں 48 ارب ڈالر تھا، مالی سال 23-2022 میں تقریباً 26 ارب ڈالر متوقع ہے۔ اس طرح ایک سال میں تجارتی خسارے میں تقریباً 22 ارب ڈالر کی کمی لائی گئی ہے۔ سی اے ڈی اور تجارتی خسارے میں کمی لاتے ہوئے حکومت نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ صرف Luxury Goods اور دیگر غیر ضروری درآمدات کو روکا جائے تاکہ ملک کی معاشی پیداواری صلاحیت میں کم سے کم منفی اثرات مرتب ہوں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ جناب سپیکر موجودہ مخلوط حکومت کے مشکل فیصلوں کی وجہ سے الحمد للہ ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں گراوٹ کو کم کیا گیا ہے۔ حکومت نےآئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کرلیا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ اسی لیے حکومت با قاعدگی سے آئی ایم ایفکے ساتھ مذاکرات کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہماری حتی المقدور کوشش ہے کہ جلد سے جلد SLA پر دستخط ہو جائیں اور پروگرام کا نواں جائزہ رواں ماہ میں مکمل ہو جائے۔جناب سپیکر !14۔ حکومت کو عوام کی مشکلات کا اندازہ ہے اور اس کی ہر ممکن کوشش ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے زیادہ سے زیادہ اقدامات کیے جائیں۔ تا کہ عوام کو مہنگائی کے اثرات سے بچایا جاسکے۔ مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے چند ماہ پہلے BISP کے تحت دیئے جانے والے کیش ٹرانسفر کی شرح میں 25 فیصد اضافہ کیا اور بجٹ کو 360 ارب سے بڑھا کر 400 ارب روپے کر دیا۔ اس کا اطلاق یکم جنوری 2023 سے ہو چکا ہے۔پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں مفت آٹے کی تقسیم کی گئی۔ اس کے علاوہ وفاقی حکومت کی طرف سے یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے ذریعے عوام کو سستی اشیاءکی فراہمی کے لیے 26 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔پچھلے ایک ماہ میں حکومت نے دو مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی۔ نتیجتاً پیٹرول کی قیمت میں 20 روپے، ڈیزل کی قیمت میں 35 روپے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 17 روپے کمی کی گئی۔ امید ہے اس کے نتیجے میں مہنگائی میں کمی آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ جولائی 2022 سے اب تک حکومت ماضی کے تقریباً 12 ارب ڈالر کے بین الاقوامی قرضہ جات کی ادائیگی کر چکی ہے اور تمام تر بیرونی ادائیگیاں بروقت ہو رہی ہیں۔ اس کے باوجود ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب 34 کروڑ ڈالر ہیں۔ حکومت نے دوست ممالک اور ڈویلپمنٹ پارٹنرز (Development partners) کے ساتھ بھی بہتر تعلقات قائم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے ہیں جو
کہ پچھلے چند سالوں میں تنزلی کا شکار ہو گئے تھے۔ اس سے معاشی بحالی میں مدد ملے گی۔ حکومت نے غیر ملکی زرمبادلہ کی غیر قانونی ترسیل کو ختم کرنے کیلئے بھی انتظامی اقدامات اٹھائے ہیں جس کے مثبت نتائج ظاہر ہو رہے ہیں۔ جناب اسپیکر ! موجودہ حکومت نے زرعی شعبے پر سیلاب کے تباہ کن اثرات اور مجموعی مشکلات کو دور کرنے کے لیے 2 ہزار ارب روپے سے زائد کا کسان پیکیج دیا۔ مجھے خوشی ہے کہ اس پیکیج کے معیشت پر مثبت اثرات آئے ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود زرعی شعبہ میں 1.5 فیصد کی گروتھ ہوئی ہے۔ گندم کی Bumper Crop کی وجہ سے 28 ملین ٹن سے زائد پیداوار ہوئی ہے اور کسان کی آمدن میں اضافہ ہوا ہے۔ ہماری دیہی معیشت میں 1500 سے 2000 ارب روپے اضافی منتقل ہوئے۔ اس سے ملک کی مجموعی معیشت پر مثبت اثر پڑے گا۔ بجٹ 24-2023 کے ذریعے حکومت زرعی شعبے کے لیے مراعات کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کی تفصیل آگے چل کر پیش کی جائے گی۔ امید ہے کہ یہ اقدامات ملک میں فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے اہم کردار ادا کریں گے۔ ا جناب اسپیکر ! رواں مالی سال کے دوران سیلاب سے متاثرہ علاقے ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا نہ کرسکے۔حکومت نے ان علاقوں میں بحالی کا کام مکمل کر لیا ہے۔ تعمیر نو کے لیے حکومت نے 578 ارب روپے کے منصوبوں پر کام کا آغاز کر دیا ہے اور انشاءاللہ اگلے مالی سال سے یہ علاقے معیشت میں دوباہر اپنا فعال کر دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال میں اندرونی اور بیرونی مشکلات کی وجہ سے LSM سیکٹر میں منفی گروتھ کا رحجان رہا، اس کی بڑی وجہ زر مبادلہ کی کمی تھی، جس کی وجہ سے خام مال کی دستیابی میں مشکلات پیدا ہوئیں، ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خام مال کو ترجیحی بنیاد پر ایل کھولنے کی اجازت دیدی گئی ہے۔ حکومت اگلے مالی سال میں اس ان رحجان کو ریورس کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، وزیراعظم شہبازشریف کی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ صنعتی شعبے پر اگلے سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، اسی طرح یہ عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں گراوٹ، ترقی یافتہ ممالک میں’ انوینٹری بلڈ اپ’ میں کمی اور ملک میں خام مال کی بہتر دستیابی کی وجہ سے بھی ایل ایس ایم میں بہتری آئے گی، مندرجہ بالا اقدامات کے نتیجے میں ملکی معیشت میں ایک Vulnerableصورتحال سے نکل کر استحکام کی طرف آرہی ہے، بجٹ مالی سال 2023-2024ءکے ذریعے ملک استحکام سے ترقی کی جانب گامزن ہوگا۔ انشاءاللہ، جناب سپیکر اب میں آپ کو بجٹ مالی سال 2023-2024ءکو عمومی سمت کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں، معیشت میں بہتری کی سمت کے باوجود ابھی بھی معیشت کو چیلنجز کا سامنا ہے، ان حالات کے مد نظر ہم نے اگلے مالی سال کے لیے ترقی کا ہدف صرف 3.5 فیصد رکھا ہے، جو کہ ایک Modest targetہے، جلد ہی ملک جنرل الیکشنز کی طرف جانے والا ہے، اس کے باوجود اگلے مالی سال کے بجٹ کو ایک الیکشن بجٹ کی بجائے ایک ذمہ دارانہ بجٹ کے طور پر ترتیب دیا گیا ہے۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ تقریر میں بتایا کہ سرکاری ملازمین کی پنشن میں اضافہ کیا جارہا ہے، سرکاری ملازمین کی کم سے کم پنشن 10 ہزار سے بڑھا کر 12 ہزار کی جارہی ہے، وفاقی حدود میں کم سے کم اجرت 32 ہزار روپے کی جارہی ہے، صوبے اس حوالے سے اپنا فیصلہ کریں گے۔ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیوٹیوٹ (ای او بی آئی) کے ذریعے پنشن حاصل کرنے والے پنشنرز کی کم سے کم پنشن کو 8500 روپے سے بڑھا کر 10ہزار روپے کرنے کی تجویز ہے، مقروض افراد کی بیواوں کے 10لاکھ روپے کے قرضے حکومت ادا کرے گی، قومی بچت کے شہداءاکاو¿نٹ میں ڈپازٹ کی حد 50لاکھ روپے سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کی جارہی ہے،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے بجٹ کو 360 ارب روپے سے بڑھا کر 400 ارب کر دیا ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ IT and IT Enabled Services معیشت کے سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا شعبے ہیں اور ان کا برا?مدات میں نمایاں حصہ ہے،عالمی معیشت میں مسائل کی وجہ سے یہ شعبہ بھی مشکلات کا شکار ہوا۔ پھر بھی ہمیں یقین ہے کہ یہ شعبہ آنے والے سالوں میں Engine of Growth ثابت ہو گا۔ پاکستان اپنا کاروبار کرنے والے Free Lancers کے اعتبار سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ان کو در پیش مسائل کا حل اور عمومی طور پر اس شعبے کے مسائل کو حل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کیے جا رہے ہیں، برآمدات کو بڑھانے کے لیے انکم ٹیکس 0.25 فیصد کی رعایتی شرح لاگو ہے۔یہ سہولت 30 جون 2026 تک جاری رکھی جائے گی۔ Free Lancers کو ماہانہ سیلز ٹیکس گوشوارے جمع کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔کاروباری ماحول میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے 24 ہزار ڈالر تک سالانہ کی Export پر Free Lancers کو سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور گوشواروں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ان کے لیے ایک سادہ Single Page انکمٹیکس ریٹرن کا اجراء کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ IT and IT Enabled Service Providers کو اجازت ہو گی کہ وہ اپنی برآمدات کے ایک فیصد کے برابر مالیت کے Software and Hardware بغیر کسی ٹیکس کے درآمد کر سکیں گے۔ ان درآمدات کی حد 50 ہزار ڈالر سالانہ مقرر کی گئی ہے۔IT اور IT Services کے Exporters کے لیے Automated Exemption Certificate جاری کرنے کو یقینی بنایا جائے گا۔ IT شعبہ کو SMES کا درجہ دیا جا رہا ہے جس سے اس شعبے کو Concessional Income Tax Rates کا فائدہ ملے گا۔ IT کے کاروبار کی Mentoring کے لیے Venture Capital کی بہت اہمیت ہے۔ بجٹ میں 5 ارب روپے سے کاروباری سرمائے کی فراہمی کے لیے حکومتی وسائل سے Venture Capital Fund کا قیام کیا جائے گا۔ ICT کی حدود میں IT Services پر سیلز ٹیکس کی موجودہ شرح کو 15 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کی جارہی ہے۔ IT کے شعبے میں قرضہ جات کی فراہمی کو ترغیب کے لیے بینکوں کو اس شعبے میں 20 فیصد کے رعایتی ٹیکس کا استفادہ حاصل ہوگا۔ اگلے مالی سال میں 50 ہزار IT Graduates کو Professional Training دی جائے گی۔بجٹ تقریر کے دوران انہوں نے کہاکہ SMEs معیشت کی کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہم نے انکی نشو ونما پر اتنی توجہ نہیں دی کہ وہ اپنی استعداد کے مطابق معیشت میں حصہ ڈال سکیں۔ بجٹ مالی سال 24-2023 میں SMES کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جائیں گے، کنسٹرکشن ، زراعت اور SMEs کی حوصلہ افزائی کے لئے ان شعبوں کو قرضے فراہم کرنے والے بینکوں کو ایسے قرضوں سے ہونی والی ا?مدن پر 39 فیصد کی بجائے 20 فیصد Concessional Tax کی سہولت اگلے 2 مالی سالوں میں یعنی 30 جون 2025 تک میسر ہوگی۔ SMES کے ٹیکس مراعات کے نظام کو وسعت دے کر SMES کا Turnover Threshold کو 25 کروڑ سے بڑھا کر 80 کروڑ روپے کیا جا رہا ہے۔ PM’s Youth Loan Programme کے ذریعے چھوٹے کاروبار کو رعایتی قرضوں کی فراہمی کے لیے اس مالی سال میں 10 ارب روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی ایک سکیم کے تحت SME کے قرضوں کو صرف 6 فیصد مارک اپ پر Refinance کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بنگ SME کی Credit History نہ ہونے کی وجہ سے ایسے قرضے دینے سے ہچکچاتے ہیں۔ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے حکومت پاکستان اس مد میں دیئے گئے نئے قرضوں کا 20 فیصد تک Risk اٹھائے گی۔ایس ایم ای فنانس سکیم کو دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے، SMEs کے لیے علیحدہ Credit Rating Agency کے قیام کی تجویز ہے۔انہوں نے کہاکہ صنعتی بالخصوص برآمدی صنعت ملک کی معیشت کا اہم ترین حصہ ہے۔ برآمدات کی ترویج کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کیے جارہے ہیں، وزیر اعظم کی سربراہی میں Export Council of Pakistan کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔ یہ کونسل ہر سہ ماہی میں کم سے کم ایک میٹنگ منعقد کرے گی اور برآمدات سے متعلق فیصلے کرے گی۔Minerals اور Metals کی برآمد کی ترویج کے لیے کسی بھی Online Market Place کے ذریعے کسی بھی مقامی خریداری پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ دی جائے گی۔ Export Facilitation Scheme کا اجراءکیا جاچکا ہے۔ اس کے تحت Exporters کی سہولیات میں اضافہ ہوگا۔ تمام Listed Companies پر Minimum Tax، 1.25 فیصد سے کم کر کے 1 فیصد کر دیا گیا ہے۔ Textile کی انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے مقامی طور پر تیار نہ ہونے والے Synthetic Filament Yarm پر 5 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کی جارہی ہے۔ اس طرح Pet Scrap پر کسٹم ڈیوٹی کو 20 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ترسیلات زر زرمبادلہ کا اہم ترین ذریعہ ہیں ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ترسیلات زر ہماری برآمدات کے 90 فیصد کے برابر ہیں۔ Formal Channels سے ترسیلات زر کو فروغ دینے کے لیے مندرجہ ذیل مراعات دی جائیں گی، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے Foreign Remmittance کے ذریعے غیر منقولہ جائیداد Immovable Property خرید نے پر موجودہ 2% Final Tax ختم کیا جا رہا ہے۔Remittance Cards کی Category میں ایک نئے ڈائمنڈ کارڈ کا اجرا کیا جارہا ہے جو کہ سالانہ 50 ہزار ڈالر سے زائد Remittance بھیجنے والوں کو جاری کیا جائے گا۔ اس Category کے لیے مندرجہ ذیل مراعات دی جائیں گی،پاکستانی ایئر پورٹس پر Fast Track Immigration کی سہولت۔ Remittance Card Holders کو قرعہ اندازی کے ذریعے بڑے انعامات دینے کے لیے سکیم کا اجراءکیا جائے گا۔اسحاق ڈار نے کہا کہ تعلیم کی اہمیت پر کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی۔ گو کہ یہ Subject صوبائی ذمہ داری ہے لیکن وفاق اس کی ترویج میں اپنا بھر پور حصہ ڈالتا ہے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اقدامات کیے جارہے ہیں، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے Current Expenditure میں 65 ارب اور Development Expenditure کی مد میں 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں مالی معاونت کے لیے پاکستان انڈومنٹ فنڈ کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے جس کے لیے بجٹ میں 5 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔ یہ فنڈ میرٹ کی بنیاد پر ہائی سکول اور کالج کے طلبہ و طالبات کو وظائف فراہم کرے گا۔ ہمارا ہدف ہے کہ کسی ہونہار طالبعلم کو وسائل میں کمی کی وجہ سے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم نہ ہونا پڑے۔لیپ ٹاپ سکیم جس کو پنجاب میں 18-2013 کے دوران بڑی کامیابی سے چلایا گیا تھا۔ رواں مالی سال میں وفاقی حکومت نے 1 لاکھ لیپ ٹاپ مستحق طلبہ میں تقسیم کا اجراءکیا۔ اسی سکیم کو جاری رکھنے کے لیے آئندہ مالی سال میں 10 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی کھیل تعلیم کا ایک لازمی حصہ ہیں بجٹ میں سکول، کالج اور پروفیشنل کھیلوں میں ترقی کے لیے 5 ارب روپے رکھے گئے ہیں، بجٹ میں خواتین کی ترقی کے لئے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس میں سکلز ڈویلپمنٹ کاروبار کے لیے ستے قرضے اور کاروبار چلانے کے لیے تربیت جیسے منصوبے چلائے جائیں گے۔ کاروباری خواتین کے لیے ٹیکس کی شرح میں بھی چھوٹ دی گئی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارے ملک کے نوجوان حکومت کی خاص توجہ کے متقاضی ہیں کیونکہ آج کے نوجوان ہی اس ملک کے روشن مستقبل کے ضامن ہیں۔وہ قومی ترقی اور خوشحالی میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔اس لئے تجویز ہے کہ آئندہ تین برس تک کسی نوجوان یا نوجوانوں پر مشتمل AOP کی طرف سے شروع کئے جانے والے کاروبار سے ہونے والی آمدنی پر ٹیکس کی شرح میں %50 تک کمی کی جائے۔یہ رعایت Individual یا AOP کی صورت میں ہمیں لاکھ روپے تک اور Company کی صورت میں پچاس لاکھ روپے تک ہو گی۔اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ کاروبار کے مالک کی عمر تمہیں سال تک ہو اور یہ کاروبار یکم جولائی 2023 یا اس کے بعد شروع کیا جائے۔اس سے کاروباری سرگرمیوں میں حصہ لینے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور نئے Business Ideas رکھنے والے Business Leaders سامنے آسکیں گے۔ Prime Minister Youth Programme for Small Loans کے تحت اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے رعایتی ریٹ پر قرضہ جات کی فراہمی کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ Prime Minister Youth Skills Programme کے تحت نوجوانوں کو Specialized Training دینے کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے ہیں۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ جناب سپیکر کنسٹرکشن سیکٹر معاشی پیداوار میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس شعبہ سے چالیس سے زیادہ صنعتیں جڑی ہوئی ہیں۔ Builders اور عام لوگوں کو نئے گھر اور عمارتوں کی تعمیر پر مراعات دینے کے لیے آئندہ تین سال تک Construction Enterprise کی کاروباری آمدن پر ٹیکس کی شرح میں 10 فیصد یا پچاس لاکھ روپے،دونوں میں سے جو رقم کم ہو رعایت دی جائے گی اور وہ افراد جو اپنی ذاتی تعمیرات کروائیں انہیں تین سال تک 10 فیصد Tax Credit یا دس لاکھ روپے،جو رقم بھی کم ہو رعایت دی جانے کی تجویز ہے۔اس Concession کا اطلاق یکم جولائی 2023 اور اس کے بعد سے شروع ہونے والے تعمیراتی منصوبوں پر ہو گا۔ (Real Estate Investment Trust (REIT سے متعلقہ Tax مراعات کو 30 جون 2024 تک توسیع دی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جناب سپیکر! ملک کے پسے ہوئے طبقے کی مالی مشکلات کو کم کرنا بھی اس بجٹ کی اہم ترجیحات میں شامل ہے،بینظیر انکم سپورٹ پروگرام غربت سے نمٹنے کے لیے حکومت پاکستان کا ایک Flagship پروگرام ہے۔ مالی سال -22-2021 میں اس پروگرام کے لیے 250 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔موجودہ حکومت نے بجٹ 23-2022 میں 360 ارب روپے تک بڑھا دیا تھا۔رواں مالی سال کے دوران اس مد میں 40 ارب روپے کا مزید اضافہ کر کے 400 ارب کیا گیا۔اگلے مالی سال کے دوران حکومت نے اس مد میں 450 ارب روپے فراہم کرنے کی تجویز دی ہے،اس پروگرام کے تحت چلنے والی چند اہم سکیمز مندرجہ ذیل ہیں،مالی سال 24-2023 میں BISP کے تحت 93 لاکھ خاندانوں کو 8,750 روپے فی سہ ماہی کے حساب سے بینظیر کفالت کیش ٹرانسفر کی سہولت میسر ہوگی۔جس کے لیے 346 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔حکومت یہ اعلان بھی کرتی ہے کہ آئندہ مالی سال میں افراط زر کی مماثلت سے اس میں اضافہ بھی کرے گی۔بینظیر تعلیمی وظائف پروگرام کا دائرہ 60 لاکھ بچوں سے بڑھا کر تقریباً 83 لاکھ تک کیا جائے گا۔جن میں 52 فیصد تعداد بچیوں کی ہے۔ اس مقصد کے لیے 55 ارب روپے سے زائد کی رقم رکھی گئی ہے۔92 ہزار طالب علموں کو بینظیر انڈر گریجویٹ سکالر شپ دیا جائے گا جس کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔بینظیر نشوونما پروگرام تمام اضلاع میں جاری رہے گا اور پروگرام سے مستفید ہونے والے بچوں کی تعداد بڑھا کر 15لاکھ کی جائے گی۔جس کے لیے 32 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے لیے 35 ارب روپے سے مستحق افراد کے لیے آٹے،چاول،چینی،دالوں اور گھی پر Targeted Subsidy دی جائے گی۔ مستحق افراد کے علاج اور امداد کے لیے پاکستان بیت المال کو 4 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔یونانی ادویات عام طور پر دیہاتی اور کم آمدنی والے افراد استعمال کرتے ہیں جن کی سہولت کے لیے یونانی ادویات پر سیلز ٹیکس کی شرح 1 فیصد کی جا رہی ہے۔