کراچی(سٹاف رپورٹر)حکومت کی اہم اتحادی جماعت نے چھوٹی عید کے موقع پر بڑی مشکل کھڑی کردی ،متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم )پاکستان نے تمام طبقات کو غیر شفاف ڈیجیٹل مردم شماری کے خلاف احتجاج کی کال دے دی ۔
”پاکستان ٹائم“ کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینرڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ ’قومی اتفاق رائے‘ تھی کہ اس غیر شفاف ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت شہر کی حقیقی آبادی شمار نہیں ہوسکتی،مردم شماری کا عمل ملک کے دیگر حصوں کی طرح کراچی میں بھی جاری ہے تاہم مرکز میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت کے اہم اتحادی کی جانب سے تاحال عدم اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے، شہر کی آبادی کے غلط اعداد و شمار کسی صورت تسلیم نہیں کیے جائیں گے، ڈیجیٹل مردم شماری کے ڈیزائن میں سنگین غلطیاں ہیں جو روز اول سے حکام کی بدنیتی کی عکاسی کرتی ہیں،خالی تنقید کرنے والی جماعتیں عملی طور پر صرف سیاست کر رہی ہیں کیونکہ وہ کوئی منظم اقدام نہیں کر رہی ہیں، کراچی کے مقابلے میں دیہی سندھ میں ڈیجیٹل مردم شماری کے بلاکس کی تعداد زیادہ رکھی گئی ہے تو اس کی وضاحت کون کرسکتا ہے؟۔ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ کراچی اور حیدرآباد میں ایک بلاک میں مجموعی طور پر 187 گھرانے ہیں لیکن دیہی سندھ میں ایک بلاک میں 250 گھر شامل ہیں، ایک اندازے کے مطابق کراچی کی 50 لاکھ سے زائد آبادی اس ڈیزائن کے تحت کم کی گئی ہے، یہ بالکل ناانصافی اور شہریوں کی غیرشفاف گنتی ہے، 1970 سے قبل حیدرآباد اور سکھر کی مجموعی آبادی کراچی کی آبادی کا 40 بھی نہیں تھی، 1970 کے بعد مختلف مقامی، علاقائی اور معاشی مسائل کی وجہ سے شہر میں بڑے پیمانے پر لوگوں کی آمد ہوئی،کیا یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ لوگوں کی اس قدر آمد اور ملک کے مختلف علاقوں اور پڑوسی ملکوں سے ہجرت کے باوجود شہر کی آبادی کم ہونا شروع ہو جائے؟ اب ہمیں مکمل یقین ہے کہ اس پر قومی اتفاق رائے ہے کہ اس ڈیجیٹل مردم شماری کے ڈیزائن کے تحت کراچی کی آبادی درست نہیں گنی جاسکتی، یہ ایم کیو ایم پاکستان ہی تھی جس نے 2017 کی قومی مردم شماری کے بعد دوسری مردم شماری کے لیے حکام کو مجبور کیا کیونکہ اس میں سنگین غلطیاں تھیں، اگر سندھ کے شہری علاقوں کی تعداد مختلف حربوں سے غلط پیش کی جاتی ہے تو پھر ہماری پارٹی سخت مزاحمت کرے گی۔ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ جو لوگ صرف پوائنٹ سکورنگ کے لیے سیاست کر رہے ہیں ان کی صرف بیان بازی سے کراچی کے شہریوں کی مدد نہیں ہوگی، کراچی کے حقوق اور آبادی کی درست گنتی کے لیے صرف بینرز لگانے سے کام نہیں ہوگا، اس کے لیے مسلسل جدوجہد اور سیاسی عزم درکار ہوتا ہے، میں کراچی میں رہنے والے تمام طبقات سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ گھروں سے باہر آئیں، مردم شماری کے نام پر یہ ناانصافی کسی ایک برادری کے خلاف نہیں بلکہ کراچی میں رہنے والے تمام افراد کے خلاف ہے، یہ اسے بھی بدتر ہے جو کچھ ماضی میں مشرقی پاکستان کے سانحے پر کیا گیا تھا۔انہوں نے مردم شماری کے پورے عمل پر سوال اٹھایا اور کہا کہ نیشنل ڈیٹا اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) تقریباً ایک کروڑ 91 لاکھ افراد کے لیے قومی شناختی کارڈ اور ب فارم جاری کرچکا ہے جس میں انہوں نے کراچی کو اپنا رہائشی مقام قرار دیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ ایک کروڑ 91 لاکھ افراد نادرا میں رجسٹر ہیں جن کے شناختی کارڈ اور ب فارم میں ایڈریس کراچی کا ہے، یہ صرف کراچی کے شہریوں کے دستاویزات ہیں، اس کے علاوہ بھی لاکھوں افراد شہر میں رہتے ہیں لیکن شناختی کارڈ میں ان کا رہائشی مقام کراچی کے علاوہ دوسرے علاقے ہیں۔
