کراچی(کامرس رپورٹر)عام آدمی کے لئے اپنی گاڑی خریدنے کا ’خواب‘ شرمندہ تعبیر ہونے سے پہلے ہی مرجھانے لگا،پاکستان میں کاروں کے درآمدی ٹیکس میں کئی سو گنا اضافہ،حکومتی ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں درآمدی کاروں پر ٹیکسوں کی بلند شرح کا مقصد مقامی کار کمپنیوں کے کاروبار کو تحفظ دینے کے ساتھ ملک میں درآمدات کو کم کرنا ہے تاکہ ملکی زرمبادلہ ذخائر کو بچایا جا سکے تاہم ٹیکسوں میں ہونے والے حالیہ اضافے کے بعد نئی گاڑیوں کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں ہیں۔

تفصیلات کے مطابق پبلک اکاونٹس کمیٹی کو گاڑیوں کے شعبے کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ملک میں کاروں کی درآمد پر 500 فیصد تک ٹیکس لگایا جا رہا ہے،درآمدی کاروں پر ٹیکسوں کی اس بلند شرح میں کچھ پرانے ٹیکس شامل ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت کی پالیسی کے تحت درآمدات کو کم کرنے کے لیے نئے ٹیکس بھی لگائے گئے ہیں۔ان ٹیکسوں کی وجہ سے ملک میں کاروں کی قیمت آسمان پر پہنچ گئی ہے۔درآمدی کاروں پر بلند شرح ٹیکس کی ایک وجہ مقامی طور پر کاریں تیار کرنے والی کمپنیوں کو تحفظ بھی دینا ہے تاکہ ان کی تیار کردہ گاڑیاں درآمدی کاروں کے مقابلے میں کم قیمت پر مقامی صارفین کو میسر ہوں۔درآمدی کاروں پر ٹیکسوں کی بلند شرح کی وجہ سے ان کی قیمتیں مقامی صارفین کے لیے تو بلند سطح پر موجود ہیں تاہم ملک میں تیار ہونے والی کاروں کی قیمتیں بھی اس وقت مہنگی ہیں جس کی وجہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے خام مال کی قیمت میں اضافہ ہے جو پاکستان باہر سے درآمد کرتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ کار بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے صارفین کو کاروں کی ڈیلیوری میں بھی تاخیر واقع ہوتی ہے جس پر پبلک اکاونٹس کمیٹی کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔درآمدی کاروں پر بلند شرح ٹیکس کی زد میں لگژری گاڑیوں سمیت کم طاقت کے انجن یعنی 660 سی سی سے لے کر 1800 سی سی تک کی گاڑیاں بھی شامل ہیں۔درآمدی کاروں کے ڈیلرز کے مطابق 660 سی سی تک کی تین سال پرانی گاڑی بھی اس وقت 30 لاکھ روپے تک پہنچ چکی ہے جو ایک متوسط طبقے کے فرد کی پہنچ سے باہر جا چکی ہے۔

پاکستان میں سٹیٹ بینک کے ریگولیشنز کے تحت اس وقت درآمدی گاڑیوں پر بینکوں کی جانب سے فنانسنگ پر پابندی عائد ہے اور مقامی طور پر تیار ہونے والی کاروں پر بھی فنانسگ کی حد 30 لاکھ تک ہے جبکہ ملک میں بلند شرح سود کی وجہ سے بھی فنانسگ میں مسلسل تین مہینے سے کمی دیکھی جا رہی ہے۔
پبلک اکاونٹس کمیٹی کو دی جانے والی بریفنگ میں بتایا گیا کہ درآمدی گاڑیوں پر ٹیکسوں کی شرح 500 فیصد تک ہے۔ان ٹیکسوں میں کسٹم ڈیوٹی،ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی،سیلز ٹیکس،ایڈیشنل سیلز ٹیکس،فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور انکم ٹیکس نافذ ہے۔درآمدی کاروں پر ٹیکسوں کی شرح میں اس وقت اضافہ ہوا جب چند مہینے قبل حکومت نے درآمدات کم کرنے کے لیے مختلف اشیا کے ساتھ گاڑیوں پر بھی ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر دیا۔1000 سی سی تک کی گاڑیوں پر ٹیکسوں کی مجموعی شرح کو 110 فیصد سے 250 فیصد کر دیا گیا۔ 1300 سے 1800 سی سی گاڑیوں پر ٹیکسوں کی مجموعی شرح کو 160 فیصد سے 300 فیصد کر دیا گیا تھا اسی طرح 1800 سی سی سے زیادہ کی گاڑیوں پر ٹیکسوں کی مجموعی شرح کو 375 فیصد سے 500 فیصد کر دیا گیا تھا۔اس کے مقابلے میں مقامی سطح پر کاریں تیار کرنے والی کمپنیاں خام مال اور پرزہ جات بیرون ملک سے درآمد کرنے پر درآمدی کاروں کے مقابلے میں بہت کم ٹیکس ادا کرتی ہیں اور درآمدی کاروں پر ٹیکسوں کی بلند شرح ان مقامی کمپنیوں کو تحفظ دیتی ہے۔پاکستان میں درآمدی کاریں گفٹ سکیم،ٹرانسفر آف ریذیڈنس اور پرسنل بیگج کے تحت منگوائی جاتی ہیں اور تین سال تک پرانی کار پاکستان میں درآمد کی جا سکتی ہے۔حکومت کی جانب سے درآمدی کاروں پر ٹیکسوں کی بلند شرح میں چھوٹی اور لگژری گاڑیاں شامل ہیں۔

دوسری طرف آل پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے برطانوی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ لگژری گاڑیوں پر بلند ٹیکس کی شرح سمجھ آتی ہے کیونکہ کہ ان کی قیمت زیادہ ہے اور انھیں درآمد کرنے والے افراد کو زیادہ ٹیکس سے فرق بھی نہیں پڑتا، 1800 سی سی سے اوپر کی گاڑیوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی 70 فیصد تھی جسے حکومت نے 100 فیصد کر دیا اور اس اضافی 30 فیصد کا بڑی گاڑیوں کی خریداروں پر زیادہ اثر بھی نہیں پڑتا تاہم 660 سی سی سے 1500 سی سی گاڑیوں پر پہلے ریگولیٹری ڈیوٹی صفر تھی تاہم اگست میں اسے 100 فیصد کر دیا گیا۔اسی طرح اضافی کسٹم ڈیوٹی کی شرح کو سات سے 35 فیصد کر دیا گیا۔کم طاقت کے انجن کی حامل گاڑیوں پر ٹیکسوں کی بلند شرح نے ان کی قیمت کو اتنا زیادہ بڑھا دیا ہے کہ اب وہ متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ڈالر کی قدر میں اضافے سے اور 250 فیصد تک ٹیکس کی ادائیگی کے بعد 660 سی سی کار کی درآمدی قیمت 30 لاکھ تک چلی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پانچ سال پرانی گاڑی کی درآمد کی اجازت ہو تو ٹیکسوں کی اس شرح کے ساتھ اس کی قیمت 22 لاکھ تک ہو سکتی ہے،مقامی طور پر کمپنیاں گاڑیوں کی پیداوار نہیں کرتیں بلکہ وہ صرف کاریں اسمبل کرتی ہیں اور اپنا تقریباً سارا خام مال اور پارٹس بیرون ملک سے منگواتی ہیں،ایک درآمدی 660 سی سی کار مقامی طور پر تیار ہونے والی گاڑی کے مقابلے میں خصوصیات کے حساب سے بہت زیادہ بہتر ہے لیکن اب ٹیکسوں کی بلند شرح نے مقامی صارفین کی اکثریت کو اس سے محروم کر دیا ہے۔

ایچ ایم شہزاد کا کہنا ہے کہ استعمال شدہ درآمدی کاریں جن سکیموں کے تحت پاکستان پہنچتی ہیں ان کی بینکوں میں ایل سی نہیں کھلتی اور نہ ہی ڈالر بیرون ملک جاتے ہیں بلکہ ان کے رشتہ داروں کو ان کی ادائیگی کی جاتی ہے،بینکوں میں ایل سی تو نہیں کھلتی تاہم یہ حوالے اور ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک چلے جاتے ہیں،اگر 50 ہزار گاڑیاں ملک میں آ رہی ہیں تو کون اپنے رشتہ داروں کو اتنی گاڑیاں بھجواتا ہے۔انھوں نے کہا یہ بھی ایک کاروبار ہے اور ملک کا زرمبادلہ اس کے ذریعے باہر جاتا ہے،مقامی صنعت کے فروغ کے لیے بھی یہ اقدام بہت ضروری ہے۔تین جاپانی کمپنیاں پاکستان میں کافی عرصے سے کاریں بنا رہی ہیں اور اب چینی،کورین کمپنیاں پاکستان میں آئیں تو انھیں تین سال تک تحفظ کی مراعات حاصل ہیں تاکہ وہ اسمبلنگ سے بڑھ کر آگے مقامی سطح پر کاریں تیار کر سکیں،اگر پلاسٹک دانے کی درآمد پر اتنا زیادہ زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے تو گاڑیوں کی درآمد چاہے وہ کم طاقت کے انجن کی ہی کیوں نہ ہوں وہ کتنا زیادہ زرمبادلہ استعمال کریں گی۔
مقامی کار کمپنیوں کی جانب سے صارفین کو گاڑیوں کی ڈیلیوری میں تاخیر پر انھوں نے کہا اس کی وجہ بھی ڈالر کی کمی ہے،اس وقت تمام کمپنیاں اپنی پیداواری استعداد سے کم سطح پر کم کر رہی ہیں جس کی وجہ سی کے ڈی کٹس کی درآمد میں دشواری ہے اور سٹیٹ بینک اس کی کھل کر اجازت نہیں دیتا اور جو تھوڑی بہت سی کے ڈی کٹس آتی ہیں اس سے گاڑیاں تیار کر کے صارفین کو دی جا رہی ہیں لیکن طلب زیادہ ہے،جس کی وجہ سے گاڑیوں کی تیاری اور ان کی صارفین کو ڈیلیوری میں تاخیر ہو رہی ہے۔