PML-N Govt Completes First Year, Performance Review Today

شہباز حکومت کا ایک سال:کیا کھویا،کیا پایا؟

تحریر:خالد شہزاد فاروقی


میاں نواز شریف کی سرپرستی اور وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی مسلم لیگ ن کی مخلوط حکومت کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے۔۔۔وزیر اعظم نے اپنی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر وفاقی دارالحکومت میں ملک بھر سے سینئر صحافیوں سمیت اہم شخصیات کو بلا کر اپنی ایک سالہ کارکردگی پیش کی اور اہم نکات پر نہ صرف روشنی ڈالی بلکہ ملک کو درپیش چیلنجز سے نکلنے کا راستہ متعین کرنے کے ساتھ ساتھ وہ حسب روایت”قصیدہ آرمی چیف“پڑھنا بھی نہیں بھولے۔۔۔۔جب شہباز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو ان کے حامیوں نے دعوے کیے کہ وہ تجربہ کار ہیں،دن رات محنت کریں گے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے لیکن ایک سال بعد حقیقت اس کے برعکس نظر آتی ہے۔آئیے شہباز حکومت کے ایک سال کا غیر جانبدار تجزیہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ دور ناکامیوں سے کیوں عبارت رہا؟؟؟۔۔۔

شہباز حکومت کا یہ ایک سال پاکستان کی سیاسی،اقتصادی اور سماجی تاریخ میں ایک نازک اور فیصلہ کن دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔۔۔اگر ہم اس عرصے کا تجزیہ کریں تو حکومت کی کامیابیاں اور ناکامیاں دونوں سامنے آتی ہیں۔۔۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس حکومت نے ملک کو کیا دیا اور اس دوران قوم کو کیا کھونا پڑا؟؟جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حکومت نے اس ایک سال میں کیا کامیابی حاصل کی تو حکومتی دعوے تو یہ ہیں کہ”پاکستان کے سفارتی تعلقات میں بہت بہتری آئی ہے اور شہباز حکومت نے عالمی سطح پر تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی،جس کے تحت کئی ممالک کے ساتھ دوبارہ سفارتی روابط مضبوط ہوئے،خاص طور پر چین،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات میں بہتری دیکھی گئی“۔۔۔

اقتدار کے ایوانوں سے مسلسل قوم کو یہ نوید سنائی گئی کہ”حکومت نے چین،سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے،جس کے نتیجے میں مالی امداد اور سرمایہ کاری کے مواقع بڑھے۔۔۔حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)سے قرض کے حصول کو ممکن بنایا،آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان کو قسطوں کی مد میں مالی مدد ملی،جس کے باعث دیوالیہ پن کے خطرے کو وقتی طور پر ٹال دیا گیا ہے۔۔۔سی پیک منصوبوں کو دوبارہ فعال کرنے کی کوششیں کی گئیں،جس سے امید بندھی کہ مستقبل میں سرمایہ کاری اور معیشت کو سہارا ملے گا۔۔۔حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ ”2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد حکومت نے بحالی کے اقدامات کیے اور عالمی اداروں سے امداد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی،تعلیمی بجٹ میں اضافہ کیا اور صحت کے شعبے میں کچھ نئے منصوبے شروع کیے،جن میں سرکاری ہسپتالوں کی بہتری اور ادویات کی دستیابی جیسے دعوے بھی شامل ہیں“تاہم اس ایک سال میں زمینی حقائق ہمیں کچھ اور ہی منظر دکھا رہے ہیں۔۔۔

ہمیں تو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کوئی نمایاں کامیابی نظر نہیں آئی اور نہ ہی دوست ممالک سے مالی امداد حاصل کرنے کی مسلسل کوششوں کے باوجود کوئی ٹھوس معاشی استحکام آ سکا ہے۔اس ایک سالہ دور میں نہ تو بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر ہو سکے،نہ مسئلہ کشمیر پر پیش رفت ہو سکی جبکہ امریکہ اور یورپی ممالک کے ساتھ بھی تعلقات میں کوئی بڑی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔۔۔۔اگر زمینی منظر نامہ دیکھا جائے تو ہمیں تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ شہباز حکومت کے دور میں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔۔۔پیٹرول،بجلی،گیس کے بلوں نے شہریوں کے چودہ طبق روشن کر دیئے اور روزمرہ کی اشیاء عوام کی پہنچ سے باہر ہو گئیں۔۔۔ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مسلسل گرتی رہی جبکہ حکومت عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے بے بس نظر آئی۔۔۔

عوام نے امید لگائی تھی کہ شہباز شریف،جو خود کو”شہباز سپیڈ“کا علمبردار کہتے تھے، معیشت میں بہتری لائیں گے لیکن حالات مزید بدتر ہو گئے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ آج شہباز حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر عام آدمی کی زندگی پہلے سے زیادہ مشکل ہو گئی ہے۔۔ہم یہ کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ اس ایک سال میں بیروزگاری میں بے تحاشا اضافہ ہوا،کاروباری برادری عدم استحکام کا شکار رہی اور کسانوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔حکومت کی پالیسیاں عام آدمی کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہیں،جس سے عوام میں بے چینی اور غصہ بڑھا۔۔۔قرضوں میں مسلسل اضافہ اور روپے کی قدر میں بے حد کمی دیکھی گئی۔۔۔ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر پہنچ گئے،جس سے کاروباری طبقہ بھی مشکلات کا شکار ہو گیا۔۔۔بجلی اور گیس کے بحران کی شدت میں اضافہ ہوا، لوڈ شیڈنگ اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے نے کاروباری طبقے اور عوام کو مشکلات میں ڈال دیا۔۔۔حکومت عوام کو مہنگائی اور بیروزگاری سے نجات دلانے میں ناکام رہی،جس کے باعث عوامی سطح پر شدید غم و غصہ پیدا ہوا اور حکومت پر عدم اعتماد بڑھ گیا۔۔۔

کیا یہ درست نہیں ہے کہ پچھلے ایک سال میں مہنگائی تاریخی سطح پر پہنچ گئی،پٹرول،بجلی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی۔۔۔رہی بات اپوزیشن کی تو تحریک انصاف کے خلاف کارروائیوں،گرفتاریوں اور انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات نے سیاسی بحران کو مزید گہرا کر دیا،جس کی وجہ سے ملک میں عدم استحکام بڑھا۔۔۔حکومت نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے سیاسی مخالفین کے خلاف بدترین انتقامی کارروائیاں کیں۔۔۔عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنماوں پر جھوٹے مقدمات درج کیے گئے،میڈیا پر قدغن لگائی گئی اور عوام کی آواز دبانے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا جبکہ کئی صحافیوں کی زبان بندی کی گئی۔۔۔جمہوری اصولوں کی پامالی نے حکومتی ساکھ کو مزید نقصان پہنچایا لہذا ہمیں یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہئے کہ میاں شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت کا ایک سال ملک و قوم کے دکھوں،مصائب اور مسائل کا مداوا نہیں کر سکا۔۔۔پاکستانی قوم نے اس ایک سال میں ”کھویا ہی کھویا “ہے پایا کچھ نہیں۔۔۔

عوام نے امید لگائی تھی کہ انہیں ریلیف ملے گا لیکن بدقسمتی سے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔۔۔مجموعی طور پر عوام کے لیے یہ سال مہنگائی،بیروزگاری اور سیاسی عدم استحکام کا سال ثابت ہوا۔۔۔معیشت،سیاست اور خارجہ پالیسی سمیت ہر شعبے میں ناکامی کے بعد عوام میں یہ سوچ مزید پختہ ہو گئی کہ تبدیلی کا واحد راستہ نئے انتخابات اور حقیقی عوامی قیادت ہے۔۔۔یہ بات بھی درست ہے کہ حکومتی پالیسیوں کے اثرات اگلے انتخابات پر نمایاں ہوں گے اور عوام کی توقعات کا بوجھ حکومت کے لیے چیلنج بنا رہے گا۔۔۔عوام اب مزید مشکلات کے متحمل نہیں ہو سکتے اور یہی وہ فیصلہ کن لمحہ ہے جو پاکستان کی سیاسی سمت کا تعین کرے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں