اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ کچھ لوگوں کوتکلیف ہے کہ پیمرا ترامیم بل قانون کیوں بن گیا؟جو لوگ اس بل پر بات کر رہے ہیں یقیناً ان لوگوں نے بل نہیں پڑھا،بل میں جوترامیم کی گئیں وہ عام آدمی کی بھی سمجھ میں ہیں،بل میں ورکرز کے بقایاجات 2ماہ میں ادا کرنے کا بھی لکھا گیا،دو ماہ میں تنخواہ نہیں ملی تو حکومت ادارے کو بزنس نہیں دے گی،عمران نیازی حکومت کے چار سالہ دور میں جس طرح میڈیا پہ پابندی رہی،زبان بندی رہی،اس وقت چلتے پروگرام بند ہو جاتے تھے،چیئرمین پیمرا کے ایک نوٹیفیکیشن کے باعث صحافیوں پہ پابندیاں لگ جاتی تھی،2023ء میں میڈیا کا منظر نامہ بدل چکا ہے،اظہار رائے کا ایک نیا پلیٹ فارم سوشل میڈیا کی صورت میں موجود ہے،پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام پر کالا قانون لانے کی کوشش کی گئی،اس قانون کے خلاف ہم سب نے دھرنے دیئے،اس کی مخالفت کی،ہر سیاسی پارٹی سمیت میڈیا کی تنظیموں نے اس کی مخالفت کی، پچھلے چار سال صحافیوں کے پیٹ میں گولیاں ماری گئیں،ان کی ناک کی ہڈیاں ٹوٹیں،انہیں اغواء کیا گیا،میر شکیل الرحمان کو جیل میں بھیجا گیا،سابق وزیراعظم عمران خان کو میڈیا پریڈیٹر کا خطاب ملا،انہیں یہ خطاب ان کے سیاسی حریفوں نے نہیں بلکہ عالمی صحافتی اداروں نے دیا۔
یہ بھی پڑھیں:پی ڈی ایم حکومت نے ایک سال کے دوران کتنا قرضہ لیا؟جان کر آپ کے بھی ہوش اڑ جائیں
”پاکستان ٹائم “ کے مطابق اسلام آباد میں پاکستان الیکٹرانک ترمیمی بل کے حوالے سے کی گئی پریس کانفرنس میں مریم اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان میں پیمرا نے 140 ٹی وی چینلز کے لائسنس فراہم کئے ہیں، 35 نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز، 52 تفریحی چینلز، 25 ریجنل چینلز، نان کمرشل اور ایجوکیشن کے 6، سپورٹس کے 5، ہیلتھ اور ایگرو کے 7 چینلز، ایجوکیشن کمرشل کے 10 چینلز ہیں،2022ءمیں مجھے پارٹی کے اعتماد سے وزیر اطلاعات کا منصب ملا،23 اپریل 2022ءکو جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ساتھ میری پہلی ملاقات ہوئی،ان تمام تنظیموں کا شکریہ ادا کرتی ہوں، انہوں نے میری معاونت کی کہ کس طرح ہم میڈیا ورکرز کی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں،تمام تنظیموں کے ساتھ اس بل پر مشاورت کا سلسلہ جاری رہا، ہم نے پہلی مرتبہ پیمرا قانون میں فیک نیوز، ڈس انفارمیشن، مس انفارمیشن کی تعریف کو شامل کیا۔ مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ملک میں 4 سال میڈیا پر سنسر شپ رہی، چیئرمین پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کو میڈیا پریڈیٹر کا خطاب ملا، چلتے پروگرام پیمرا کی ایک جنبش سے بند ہوجاتے تھے، چار سالوں میں صحافیوں پر تشدد کیا گیا، چلتے پروگرام بند کئے گئے، ان 4 سالوں میں پی ایم ڈی اے کا بھی شوشہ چھوڑا گیا، جس کی ہم نے بھرپور مخالفت کی اور اس کی منظوری کو ناکام کیا، اس وقت وزیرِ اطلاعات صحافیوں کو تھپڑ مار رہا تھا دھمکیاں دے رہا تھا، کہا جاتا تھا دیکھتا ہوں یہ بل کیسے پاس نہیں ہوگا؟ اس وقت کہا جاتا تھا یہ رپورٹر بہت بولتا ہے اس کو نوکری سے نکالو، ان تمام چیزوں میں شفافیت کیلئے ہم مل بیٹھے تھے، یہ بل حکومت نہیں میڈیا اور پاکستان کا بل ہے، نومبر 2021 میں ہیومن رائٹس کمیٹی نےاس بل پر بیان دیاتھا، پاکستان نے اس پر ایک قرارداد پاس کی اور انٹرنیشل پریکٹس میں موجود قانون کو دیکھتے ہوئے بل بنایا گیا۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ 23 اپریل 2022 کو جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی پہلی میٹنگ ہوئی، میڈیا سے تمام افراد اس میٹنگ میں موجود تھے، میٹنگ میں رہنمائی کی گئی کہ کس طرح ذمہ دارانہ میڈیا کی بنیاد رکھ سکتے ہیں،11 ماہ اس پر صلاح و مشورے جاری رہے، ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن میں فرق کو واضح کیاگیا۔