صوبائی انتخابات میں تاخیر کا کیس، چیف جسٹس 8 اکتوبر کی تاریخ دینے پر برہم

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر ) چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی ، الیکشن کمیشن کی جانب سے 8 اکتوبر کی تاریخ دینے پر برہم ہو گئے ، چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کی 8 اکتوبر کو کونسا جادو ہو جائے گا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔
” پاکستان ٹائم “کے مطابق چیئر مین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یوآئی ف نے کیس میں پارٹی بننے کی متفرق درخواست دائر کر دی ، پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جسٹس جمال کے ریمارکس کے بعد فل کورٹ بنائی جائے، جس پر جسٹس جمال نے کہا کہ فل کورٹ کیوں ؟ وہی 7 ججز بنچ میں بیٹھنے چاہئیں، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پہلے فیصلہ کریں کہ 4/ 3 کا یا 3/2 کا فیصلہ تھا، ساری قوم ابہام میں ہے ، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 4 ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں، ہمارے حساب سے فیصلہ 4ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دا کورٹ جاری نہیں کیا، جب آرڈر آف کورٹ نہیں تھا تو صدر مملکت نے تاریخ کیسے دی، جب آرڈر آف کورٹ نہیں توالیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے دیا؟، الیکشن کمیشن نے کس حکم کے تحت فیصلے پر عملدرآمد کیا؟
الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا، الیکشن کمیشن کی سمجھ کے مطابق فیصلہ 3/2 کا تھا، عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر سے رجوع کیا ، صدر مملکت نے تیس اپریل کی تاریخ دی، کمیشن نے تاریخ مقرر کرنے کے بعد شیڈول جاری کیا اور انتخابات کی تیاریاں شروع کردی، آرٹیکل 224 کےتحت الیکشن 90 روز میں ہونا ہیں، عدالتی آرڈر میں لکھا ہے کہ فیصلہ 3/2 سے ہے، 3/2 والے فیصلے پر پانچ ججز کے دستخط ہیں، کمیشن نے فیصلے کے پیراگراف 14 اور ابتداءکی سطروں کو پڑھ کر عمل کیا، ممکن ہے کہ ہمارے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ اختلافی نوٹ لکھے گئے ہیں، اختلافی نوٹ میں واضح لکھا ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور اطہر من اللہ ہمارے فیصلے سے متفق ہیں، کیا جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے ہوا میں تحلیل ہو گئے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن سے متعلق آرڈر 22 مارچ کی شام کو جاری کیا، الیکشن کمیشن نے فوج رینجرز اور ایف سی کو سکیورٹی کے لیے خط لکھے، فوج نے الیکشن کمیشن کو جوان دینے سے انکار کیا، ایجنسیوں نے الیکشن کمیشن کو خفیہ رپورٹس دیں ، جن میں بھکر میانوالی میں ٹی ٹی پی سندھو دیش مختلف کالعدم تنظیموں کی موجودگی ظاہر کی گئی، ہمیں دو لاکھ 97 ہزار سکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے، وزارت داخلہ نے بھی 8 فروری کے خط میں امن و امان کی خراب صورتحال کا کہا، وزارت خزانہ نے بتایا کہ موجودہ مالی سال میں الیکشن کے لیے فنڈز جاری نہیں کر سکتے، سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ بیس ارب روپے جاری کرنا ناممکن ہوگا، اسپیشل سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ان حالات میں پرامن انتخابات کا انعقاد نہیں ہو سکتا۔
جسٹس منیب نے کہا کہ کیا آپ کو فروری میں خیال تھا کہ اکتوبر میں الیکشن کروانا ہے، اگر اکتوبر میں الیکشن کروانا تھا تو صدر کو 30 اپریل کی تاریخ کیوں دی ، چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن تو ہر صورت 2023 میں ہونا تھے، کیا بجٹ میں 2023 الیکشن کیلئے بجٹ نہیں رکھا گیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انتخابات کیلئے بجٹ آئندہ مالی سال میں رکھنا ہے، قبل ازوقت اسمبلی تحلیل ہوئی اس کا علم نہیں تھا، ملک بھر میں ایک ہی دفعہ انتخابات ہوں تو 47ارب روپے خرچ ہوں گے، انتخابات الگ الگ ہوں تو 20 ارب روپے اضافی خرچ ہوگا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل دیے کہ سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی نے بتایا کہ کے پی کے میں کالعدم تنظیموں نے متوازی حکومتیں بنا رکھی ہیں، خفیہ رپورٹس میں بتایا گیا کہ مختلف دہشتگرد تنظیمیں متحرک ہیں، خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں شیڈو حکومتیں قائم ہیں، خفیہ رپورٹس کے مطابق ان خطرات سے نکلنے میں چھ سے سات ماہ لگیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو معلومات آپ دے رہے ہیں وہ سنگین نوعیت کی ہیں ، کیا آپ یہ باتیں صدر مملکت کے علم میں لا?ے، اگر صدر پاکستان کو نہیں بتایا تو آپ نے غلطی کی ہے ، صدر نے تاریخ الیکشن کمیشن کے مشورے سے دی تھی، خفیہ رپورٹس میں کہا گیا کہ علاقوں کو کلئیر کرنے میں 6 ماہ لگیں گے، پنجاب میں کچے کا آپریشن کب مکمل ہوگا ؟۔
سجیل سواتی نے جواب دیا کہ پنجاب کے مطابق کچے کا آپریشن مکمل ہونے میں چھ ماہ تک لگ جاینگے،دہشتگردی کے باوجود ملک میں انتخابات ہوتے رہے ہیں
چیف جسٹس نے کہا کہ بیس سال سے ملک میں دہشتگردی کا مسئلہ ہے، اس کے باوجود ملک میں انتخابات ہوتے رہے ہیں، 90 کی دہائی میں تین دفعہ الیکشن ہوئے، جب فرقہ واریت اور دہشت گردی عروج پر تھی، 58/2 بی کے ہوتے ہوئے ہر تین سال بعد اسمبلی توڑ دی جاتی تھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں