لاہورخصوصی رپورٹ)حذیفہ رحمان ملک کے معروف تجزیہ کارہیں،وہ ملک کے سب سے بڑے قومی اخبار ”روزنامہ جنگ “ میں گذشتہ 12سال سے ”کھلا راز “ کے نام سے کالم لکھ رہے ہیں،اپنے کالم میں حذیفہ رحمان نے مسلم لیگ ن کے پنجاب میں عروج و زوال کی کہانی لکھتے ہوئے تہلکہ خیز انکشافات کئے ہیں ۔
حذیفہ رحمان روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ”نواز شریف نے مسلم لیگ ن کی باقاعدہ بنیاد 1992ء میں رکھی تھی۔اس سے پہلے 1985ء کے غیر جماعتی انتخاب کے بعد نواز شریف نے وزیراعلیٰ بن کر صوبہ پنجاب کی باگ ڈور سنبھالی۔1985اور 1988میں مسلسل دو مرتبہ وزراتِ اعلیٰ کا قرعہ فال نواز شریف کے نام نکلا۔اس عرصے میں نوازشریف نے پنجاب کو خود لیڈ کیا اور اٹک سے لے کر روجھان مزاری تک سیاسی جڑیں مضبوط کیں۔نوازشریف کو اپنی وزارت ِاعلیٰ کے انہی ادوار کی وجہ سے مسلم لیگ ن کی بنیاد رکھنے میں آسانی ہوئی اور اسی محنت کی وجہ سے آج بھی مسلم لیگ ن پنجاب کی مقبول ترین سیاسی جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب کو میاں نواز شریف خود چلاتے تھے اور پارٹی کی جڑوں کو کبھی کھوکھلا نہیں ہونے دیتے تھے۔نوازشریف کو پنجاب کے ایک ایک سیاسی گھرانے کی اہمیت اور عوامی نبض کا بخوبی احساس تھا۔پھر وقت تبدیل ہوا۔نوازشریف وزیراعظم بن کر مرکز میں چلے گئے اور پنجاب کی باگ ڈور شہباز شریف کے حوالے کردی۔یوں کہہ سکتے ہیں کہ پہلے نواز شریف پنجاب میں پارٹی کو چلارہے تھے اور پھر وہ ذمہ داری شہباز شریف کے حصے میں آئی۔شہباز شریف نے بھی نوازشریف کی قیادت میں پنجاب میں بہتری کارکردگی دکھائی مگر شہباز شریف کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد بھی بیشک انتظامی فیصلے شہباز صاحب کرتے تھے مگر تمام سیاسی فیصلے میاں نواز شریف خود کرتے تھے۔
پھر پارٹی پر برے وقت کا آغاز ہوا۔میاں نواز شریف علاج کرانے کی غرض سے بیرون ملک چلے گئے۔شہباز شریف قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہو گئے۔پنجاب میں بھی مسلم لیگ ن عثمان بزدار کو ہٹا کر اپنا وزیر اعلیٰ لانے میں کامیاب ہوگئی۔پورا صوبہ عطا اللہ تارڑ،ملک احمد خان اور بیرسٹر نبیل اعوان کے حوالے کردیا گیا۔عطا اللہ تارڑ شہباز شریف کی وزارتِ اعلی میں پنجاب حکومت میں گریڈ 17کے کنٹریکٹ ملازم تھے۔پہلے شہباز صاحب اور پھر حمزہ صاحب کے سرکاری سٹاف افسر کی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔2018 میں پارٹی میں قیادت کا اتنا فقدان پیدا ہوا کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی صوبہ پنجاب کی باگ ڈور ایک سٹاف افسر کے حوالے کردی گئی۔ 2022 میں حمزہ صاحب کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد انہی لوگوں نے پورے پنجاب کی انتظامیہ کے انٹرویو کئے اور افسران کی ایسی ٹیم لگائی کہ مسلم لیگ ن ضمنی الیکشن بدترین انداز میں ہار گئی۔کہاں شہباز شریف پنجاب کے ڈی سی،ڈی پی او،آر پی او،کمشنر اور 26 انتظامی سیکریٹریز کے انٹرویو کرکے لگاتے تھے اور کہاں یہی کام ایک سٹاف افسر اور ایک ایم پی اے کے سپرد کیا گیا۔اگر مسلم لیگ ن پرویز الٰہی پر تنقید کرتی ہے کہ پورا صوبہ اپنے ذاتی ملازم سے چلوا رہے تھے تو مسلم لیگ ن بھی تو صوبہ ایک ذاتی سٹاف افسر لیول کے بندے سے چلوا رہی تھی۔
پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا چیلنج کیا جا رہا ہے،سیاست چھوڑنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں مگر پرویزالٰہی جیسے سینئر ترین سیاستدان کا مقابلہ کرنے کے لئے عطا اللہ تارڑ صاحب کو بھیجا گیا۔حالانکہ لاہور مسلم لیگ ن کا سیاسی گڑھ ہے۔خواجہ سعد رفیق لاہور کی سیاست کے چیمپئن تصور کئے جاتے ہیں،خواجہ احمد حسان کی ساری زندگی لاہور میں گزر گئی ہے،ایاز صادق تمام سنجیدہ سیاسی حلقوں میں پسند کئے جاتے ہیں،رانا تنویر لاہور سے نہیں ہیں مگر ان کا شیخوپورہ کا حلقہ اور لاہور جڑے ہوئے ہیں،انتہائی سینئر سیاستدان ہیں۔رانا پھول کے فرزند رانا اقبال کے خاندان کی ساری زندگی مسلم لیگ ن اور پنجاب اسمبلی کے ساتھ گزری ہے،مسلسل دس سال پنجاب اسمبلی کے سپیکر رہے۔خرم دستگیر گوجرانوالہ کی سیاست کے حوالے سےایک ناقابل تردید حقیت ہیں۔پتہ نہیں ایسی کونسی مجبوری آڑے آگئی تھی کہ پنجاب اسمبلی میں سیاسی جوڑ توڑ کے حوالے سے ان سینئر ترین اراکین کی خدمات حاصل نہ کئی گئیں۔رانا ثنا اللہ ایک بہادر آدمی ہیں مگر بطور وزیرداخلہ اور اب پنجاب اسمبلی کے حوالے سے کافی مایوس کیا ہے۔ملک کی تمام انٹیلی جنس ایجنسیز کا نگران اس بات سے بے خبر تھا کہ پرویز الٰہی بندے پورے کرچکے ہیں۔بہت سے بڑے ناموں سے ذاتی تعلق اور دوستی ہے مگر ایسے میں حقائق سے منہ نہیں موڑا جاسکتا۔ان غلطیوں کی وجہ سے مسلم لیگ ن کو پنجاب میں یکے بعد دیگرے بد ترین ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہی حقیقت ہے۔
میاں نوازشریف کو اپنی پارٹی بچانے کے لئے خود آگے آنا ہوگا۔مرکز قائم رہے نہ رہے مگر پنجاب کے حوالے سے مقبول سیاسی فیصلے کرنا ہونگے۔کیونکہ پنجاب مسلم لیگ ن کی بنیاد ہے اور اپنی بنیاد کو ایک کمزور وفاقی حکومت کےلئے قربان کرنا کوئی عقلمندی نہیں۔نواز شریف کو خود لیڈ کرنا ہوگا۔پارٹی میاں نواز شریف کی ہے اور سخت فیصلے بھی میاں صاحب آپ کو لینے ہیں۔اگر پنجاب آپ کے ہاتھ سے سلپ ہوا تو پھر باقی کچھ نہیں رہے گا۔آپ کی جماعت نے 2008 سے 2013 تک پنجاب کے بل بوتے پر مرکزی حکومت حاصل کی تھی اور پیپلزپارٹی کے پاس 2008 کی پنجاب اسمبلی میں سو سے زائد ارکان اسمبلی تھے مگر غیر مقبول فیصلے اور وفاقی حکومت کی کوتاہیوں اور غلطیوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی پنجاب میں ایسی eliminateہوئی کہ 2013 سے 2018 ء کی پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پاس آدھ درجن ایم پی ایز بھی نہیں تھے۔ پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کریں۔اگریہی نا تجربہ کار ٹیم رہی تو آئندہ نتائج اس سے بھی بھیانک ہونگے اور ”تمہاری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔“
